كیا یہ صحیح ہے کہ جناب رسول مقبول ﷺ نے حکم بن العاص کو مدینہ منورہ سے شہر بدر کیا تھا. خلافتِ شیخین میں بھی وہ باہر رہا پھر سیدنا عثمانؓ نے اسے مدینہ آنے کی اجازت کیوں دے دی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ثاقبجواب:
حکم بن ابی العاص کا شہر بدر کیا جانا بعض مورخین نے بیان کیا ہے لیکن اس واقعہ کی نسبت چونکہ حضور ﷺ کی طرف ہے اس لیے ضروری ہے کہ یہ واقعہ کتبِ حدیث میں کسی سندِ صحیح سے ملے اور صحیح ہے کہ اس واقعہ پر کوئی صحیح حدیث نہیں ملتی. جن روایات میں یہ قصہ مذکور ہے ان میں کسی کی بھی سند صحیح نہیں. ہشام ؒکلبیؒ اور واقدیؒ جیسے راویوں کے بیان پر اسے حضورﷺ کی طرف منسوب کرنا درست نہیں. حافظ ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں:
قصة نفى الحكم ليست فی الصحاح ولا لها اسناد يعرف به أمرها.
(منہاج السنة جلد 3 صحفہ 196)
ترجمہ:حکم کے جلاوطن کیے جانے کا قصہ صحاح کی کتابوں میں نہیں ملتا اور نہ اس کی کوئی ایسی سند ملتی ہے کہ اس کے حالات کو پہچانا جا سکے۔
اگر تاریخ کی روایت کو کسی درجہ میں لائق اعتنا سمجھے جا سکتا ہے تو وہاں یہ بھی مذکور ہے کہ حضور ﷺ نے اسے واپس آنے کی اجازت بھی دے رکھی تھی. ابن جریر طبریؒ روایت کرتے ہیں:
ان الحكم كان مكيا فسیرہٗ رسول الله صلی اللّٰہُ عَلَیْہ وسلم الی الطائف ثم ردہ الی بلدہ فرسول اللّٰه صلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلم سیرہ بذنبه و رسول الله صلى الله عليه واله وسلم زده بعفوه.
(تاریخ طبری جلد 5 صحفہ 135)
ترجمہ:حکم مکہ کا رہنے والا تھا رسول پاکﷺ نے اسے طائف کی طرف بھجوا دیا تھا پھر آپ نے ہی اس کی وطن واپسی کی اجازت بھی دے رکھی تھی سو آپ ہی اس کے قصور پر اسے وہاں بھجوانے والے تھے اور آپ اسے اس کے اظہار ندامت پر واپس بلانے والے ہوئے. پھر بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ سیدنا عثمانؓ نے اس پر لوگوں کی شہادت طلب کی تھی۔
اَکذلك؟ قالوا اللّٰهم نعم.
ترجمہ:کیا بات اسی طرح ہے؟ انہوں نے کہا ہاں بے شک اسی طرح ہے۔
پھر یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اگر حضور ﷺ نے اسے شہر بدر کیا تھا تو کیا ہمیشہ کے لیے کیا تھا اور کیا کتاب و سنّت میں کسی بھی جرم کی سزا اسی طرح ابدی ہے؟ جس زانی پر شہادت نہ گزرے اسے بھی حاکمِ وقت زیادہ سے زیادہ ایک سال کے لیے شہر بدر کر سکتا ہے. مخنث بھی صرف اس وقت تک شہر بدر رہے گا جب تک توبہ نہ کرے. شریعت نے کسی کو دائمی طور پر جلا وطن نہیں کیا. جن لوگوں نے حکم بن ابی العاص کا ہمیشہ کے لیے شہر بدر ہونا بتلایا ہے وہ اس پر کوئی شرعی دلیل نہیں پیش کر سکے. حافظ ابن حزمؒ لکھتے ہیں.
ونفى رسول الله صلى الله عليه واله وسلم للحكم لم يكن حداً واجباً ولا شريعة علیٰ التابید وانما کان عقوبة علیٰ ذنب استحق به النفى والتوبة مبسوطة فاذا تاب سقطت عنه تلك العقوبة بلا خلاف من احد من اهل الاسلام.
(كتاب الفصل جلد 4 صحفہ 154)
ترجمہ: اور حضورﷺ کا حکم کو جلا وطن کرنا حد واجب کے طور پر نہ تھا اور کسی کو ہمیشہ کے لئے جلا وطن کرنا کوئی اسلامی قانون نہیں ہے یہ ایک گناہ پر ایک سزا تھی جس سے وہ جلا وطنی کا مستحق ہوا اور توبہ کا سلسلہ وسیع ہے جب وہ توبہ کرے تو یہ سزا معاف ہو جاتی ہے اور اس میں اہل اسلام کا کوئی اختلاف نہیں ہے۔
حافظ ابن تیمیہؒ بھی لکھتے ہیں.
و اذا کان النبی صلی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وسلم قد عذر رجلاً لم یلزم ان یکون منفیا طول الزمان فان ھذٰا لا یعرف فی شيء من الذنوب ولم تات الشريعة بذنب يبقى صاحبه منفياً دائماً
(منہاج السنة جلد 3 صحفہ 196)
ترجمہ: اور جب آپﷺ نے کسی شخص پر تعزیر جاری کی ہو تو لازم نہیں کہ وہ عمر بھر جلا وطن ہی رہے کیونکہ یہ اصول کسی بھی جرم میں وارد نہیں ہے اور نہ شریعت نے کوئی ایسا گناہ بتلایا ہے جس کا مرتکب دائمی طور پر جلا وطن رہے گا۔
رہا یہ سوال کہ سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ نے حکم کو مدینہ آنے کی اجازت کیوں نہ دی؟اس کا جواب یہ ہے کہ ان حضرات میں کسی نے حضورﷺ کے اس حکم جلاوطن کو مدت العمر کی سزا نہیں کہا ہے. بطور حاکمِ وقت کے اس وقت کے لیے یہ ان کا اپنا فیصلہ تھا اور سیدنا عثمانؓ نے اپنے وقت میں اپنا فیصلہ کیا اور حاکم وقت ہونے کی حیثیت سے انہیں اس کا پورا اختیار تھا فقہاء کا مسلمہ اصول ہے کہ حالات بدلنے پر فتوے مختلف ہو جاتے ہیں۔
یہ سب جواب اس صورت میں ہے کہ حکم کی جلا وطنی کسی صحیح حدیث سے ثابت ہو اس صورت میں ہر حاکم وقت کو جس کو اس کی توبہ اور ندامت کی خبر پہنچے اس کی سزا معاف کرنے کا حق ہوگا. اسلامی قانون کسی کو ہمیشہ کے لیے جلا وطن نہیں رکھتا۔
بعض روایات سے پتہ چلتا ہے کہ حکم بن ابی العاصؓ جب سے اسلام لایا مکہ میں ہی رہا. طائف جانے کا قصہ بے اصل ہے پھر حضرت عثمانؓ نے انہیں مدینہ آنے کی اجازت دی کہ وہ یہاں آئے. ابن سعدؒ لکھتے ہیں:
اسلم يوم فتح مكه ولم يزل بها حتى كانت خلافة عثمان بن عفان رضي الله عنه فاذن لها فدخل المدينة فمات بها في خلافت عثمان بن عفان.
(طبقات ابن سعد جلد 5 صفحہ 331)
ترجمہ: فتح مکہ کے دن مسلمان ہوا اور سَیِّدُنَا عثمانؓ کی خلافت تک وہیں رہا. سیدنا عثمانؓ نے اسے مدینہ آنے کی اجازت دی تو وہ مدینہ آیا اور دورِ عثمانی میں اس نے وہیں وفات پائی۔
پھر مروان کا تو اس میں کوئی قصور نہیں، نہ حضورﷺ نے اسے جلا وطن کیا اور نہ وہ آپ کہ سامنے اس عمر میں تھا کہ حضور ﷺ اس کے لیے کوئی سزا تجویز کریں. حکم کا قصہ (اگر وہ ثابت ہو) مروان کے سر لگانا کسی طرح درست نہیں مروان اگر اس درجہ قصور وار ہوتا تو سیدنا زین العابدینؓ اسے اپنا استاد حدیث نہ بناتے. سیدنا عثمانؓ نے جب مروان کو اپنا سیکرٹری بنایا تھا تو اس وقت اس کا باپ حکم فوت ہو چکا تھا شیعہ کی یہ بات درست نہیں کہ عملا اس وقت بھی حکم اپنے بیٹے کو چلا رہا تھا۔