Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا عثمانؓ نے امیر معاویہؓ کو شام میں اتنا طول اقتدار بخشا کہ اس کی قیمت پھر سیدنا علیؓ کو ادا کرنا پڑی. شام میں سیدنا امیر معاویہؓ کی سیاسی پوزیشن اتنی قوی ہو چکی تھی کہ خلیفۂ وقت سیدنا علیؓ انہیں عملاً معزول کرنے پر قادر نہ تھے. سلطنت اسلام دو حصوں میں منقسم ہوئی تو اس کا ایک سبب کیا سیدنا امیر معاویہؓ کا یہ غیر معمولی سیاسی اقتدار نہ تھا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   آفتاب

جواب:

سیدنا معاویہؓ کو شام میں سیدنا عثمانؓ نے مقرر نہ کیا تھا، سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے 13 ہجری میں جو کمک شام بھیجی اس پر آپؓ نے سیدنا معاویہؓ کو امیر مقرر کیا تھا اور اموی حضرات کو آگے کرنے کی یہ تحریک بھی سیدنا ابوبکرؓ نے کی تھی. آپ نے حضورﷺ کو انہیں اپنا نمائندہ بناتے ہوئے دیکھا تھا حضورﷺ نے وائل بن حجرؓ کو ایک قطعۂ زمین دینے کے لیے سیدنا معاویہؓ کو اپنا نمائندہ بنایا تھا. امام بخاریؒ حضرت وائل بن حجرؓ سے روایت کرتے ہیں:

فبعث رسول الله صلى الله عليه واله وسلم معى معاويه بن ابي سفيان قال وامره ان يعطينی ارضاً فيدفعها الي. 

(تاریخ کبیر امام بخاریؒ جلد 4 صحفہ 176) 

ترجمہ:حضورﷺ نے میرے ساتھ معاویہ بن ابی سفیانؓ کو بھیجا اور کہا کہ وہ مجھے ایک قطعۂ اراضی دیں گے۔

حضورﷺ نے یہ جانتے ہوئے کہ ابو سفیانؓ ہر معرکے میں مسلمانوں کے خلاف رہے ہیں ان حضرات کو کیوں آگے کیا؟ ہم اس سوال کی جسارت نہیں کر سکتے. حضورﷺ کو ان کے اخلاص و ایمان پر پورا بھروسہ تھا تبھی تو وہ انہیں اپنے ابتدائے اسلام میں ہی اسلام کے کاموں کے لیے آگے بڑھا رہے تھے. کیا حضورﷺ نے ابو سفیان کو اسلام لاتے ہی نجران کا والی نہ بنا دیا تھا. 

(نسب قریش صحفہ 122) 

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اسی ذہن سے امیر معاویہؓ کو شام کی طرف جانے والی کمک کا امیر بنایا. ان دنوں اس علاقے کے والی یزید بن ابی سفیانؓ ان کے بڑے بھائی تھے۔

واجتمع الیٰ ابی بکر اناس فامر علیھم معاویه وامره باللحاق بيزيد فخرج معاویه حتى لحق بيزيد. 

(ابن جریر طبریؒ جلد 4 صحفہ 30، البدایہ النہایہ جلد 7 صحفہ 4) 

ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو گئے آپ نے معاویہؓ کو ان پر امیر بنایا اور آپ کو کہا کہ اپنے بھائی یزید سے جا ملو آپ نکلے اور یزید بن ابی سفیانؓ سے آ ملے۔

شام کے علاقہ میں دو اموی بھائیوں کو جمع کرنا کیا یہ حضرت عثمانؓ نے کیا تھا؟ پھر سیدنا عمرؓ کا دور آیا تو کیا یزید بن ابی سفیانؓ شام کے والی نہ تھے؟ وہ فوت ہوئے تو سیدنا عمرؓ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کی پیروی میں ان کے بھائی سیدنا معاویہؓ کو وہاں کا والی بنایا اور سیدنا عثمانؓ نے سيرتِ شَیخَین کی پیروی کرتے ہوئے انہیں ہی وہاں مقرر ركھا اور شام کی پوری قلمرَو اسلامی بھی سیدنا عثمانؓ نے نہیں سیدنا عمرؓ نے آپ کو دی تھی. حافظ ذہبیؒ لکھتے ہیں:

(ثم جمع عمر الشام كلها لِمعاويه واقره عثمانؓ) 

(سير اعلام النبلاء جلد 3 صحفہ 88) 

ترجمہ: پھر سیدنا عمرؓ نے پورا شام معاویہؓ کو دے دیا تھا اور سیدنا عثمانؓ نے بھی آپ کو وہاں ٹھہرائے رکھا. سیدنا معاویہؓ اپنی اس حیثیت کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں.

ان رسول الله صلى الله عليه واله وسلم كان معصوماً فولانى فادخلنى فى امره ثم استخلف ابو بكر فولانى ثم استخلف عمر فولانى ثم استخلف عثمانؓ فولانى. 

ترجمہ: حضورﷺ معصوم شخصیت تھے آپ نے مجھے اپنی ولایت بخشی اور مجھے اپنے کام میں داخل کیا پھر سیدنا ابوبکرؓ خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی مجھے والی بنایا پھر سیدنا عمرؓ خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی مجھے اپنی ولایت بخشی پھر سیدنا عثمانؓ خلیفہ ہوئے تو آپ نے بھی مجھے والی رکھا۔

ان حالات میں سیدنا عثمانؓ وہ شام میں اموی اقتدار کا ذمہ دار ٹھہرانا قریں انصاف نہیں بلکہ دیکھا جائے تو سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ نے اس دور میں انہیں وہاں ٹھہرایا جب ان سے بہتر اور بزرگ اور صحابہ موجود تھے اور سیدنا عثمانؓ نے تو ان سے اس دور میں وہاں خدمات لیں جب سیدنا معاویہؓ خود اکابر کی صف میں آچکے تھے. سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے علم، ان کی بزرگی اور ان کی ہاشمیت میں کسے شک ہو سکتا ہے. آپ فرماتے ہیں.

لیس احد منا اعلم من معاوية. 

(السنن الکبریٰ جلد 3 صحفہ 26)

ترجمہ:اس دور میں ہم سے کوئی معاویہؓ سے زیادہ علم رکھنے والا نہ تھا۔

آپؓ نے یہ بھی فرمایا:”انہیں جانے دیجئے آپ حضورﷺ کے صحابیؓ ہیں آپ نے وتر میں درست عمل کیا ہے بے شک آپ فقیہ ہیں“.

(صحیح بخاری جلد 1 صفحہ 531) 

سلطنت اسلامی کا دو حصوں میں ہونا یہ صرف آپ کی تجویز نہ تھی. حضرت علیؓ اور سیدنا معاویہؓ دونوں نے 40ھجری میں آپس میں معاہدہ کیا تھا کہ دونوں اپنی اپنی جگہ حکومت پیرا رہیں. ابن جریر طبریؒ (310ھجری) 40 ھجری کے واقعات کے تحت لکھتا ہے.

وفي ھذٰہ السنة جرت بين على و معاویة الهدنة بعد مكاتبات يطول ذكرها على وضع الحزب بينهما. وامسك كل واحد منها عن قتال الاخر. 

(تاریخ طبری جلد 6 صحفہ8، البدایہ النہایہ جلد 7 صحفہ 322) 

ترجمہ:اور اس سال یعنی 40ھجری میں سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ میں طویل خط و کتابت رہی اور آپس میں جنگ بند کرنے پر صلح ہوئی اور ہر ایک دوسرے پر حملہ کرنے سے رک گیا۔

اب آپ ہی خیال کریں سلطنت اسلام کیا ہر دو کے مشورے سے دو حصوں میں منقسم نہ ہوئی؟ پھر صرف سیدنا امیر معاویہؓ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟