سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی خبر جب شام پہنچی(جہاں امیر معاویہؓ سیدنا عثمانؓ کی طرف سے گونر تھے) تو سیدنا معاویہؓ کا سیدنا علیؓ کی بعیت سے انکار اگر محض اس لیے ہوتا کہ وہ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص چاہتے تھے تو شام میں مقیم دیگر صحابہ ؓ کیوں ان کے ساتھ شامل نہ ہوئے؟ معلوم ہوتا ہے سیدنا امیر معاویہؓ نے محض اپنے اقتدار کے لیے خلافت مرتضوی سے اختلاف کیا تھا.
سوال پوچھنے والے کا نام: افتخارجواب:
یہ غلط ہے کہ سیدنا معاویہؓ کے ساتھ وہاں کے دیگر صحابہ ؓ اس مطالبہ قصاصِ عثمانؓ میں شامل نہ ہوئے تھے سیدنا عبادہ بن صامت ؓ (34هجری) اور سیدنا ابو الدرداء (32هجری) اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہاں موجود تھے۔ اور یہ سب حضرات اس مطالبہ میں سیدنا معاویہؓ کے ساتھ تھے. یہ حضرات خود ہرگز شریکِ اقتدار نہ تھے کہ ان کے متعلق یہ شبہ راہ پاسکے کہ یہ خود کسی مصلحت سے خونِ عثمانؓ کے قصاص کے لیے اٹھے ہوں. حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں.
وقام في الناس معاویة و جماعة من الصحابة معه يحرضون الناس على المطالبة بدم عثمان ممن قتله من اولئك الخوارج فهم عباده بن صامت و ابودرداء و ابو امامة و عمرو بن عنسبة و غيرهم.
(البدایہ النہایہ جلد 7 صحفہ 227)
ترجمہ:اور لوگوں میں امیر معاویہؓ اور آپ کے ساتھ صحابہ ؓ کی ایک جماعت اٹھ کھڑی ہوئی جو لوگوں کو ان خارجیوں سے جنہوں نے سیدنا عثمان ؓ کو قتل کیا تھا خونِ عثمانؓ کے قصاص کے لیے آمادہ کرتے تھے. ان میں سیدنا عبادہ بن صامتؓ، سیدنا ابوالدرداءؓ، سیدنا ابو امامہؓ، عمرو بن عنسبہ سبھی شامل تھے.
یہ بھی غلط ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے خود خیلفہ بننے کے لیے بیعتِ مرتضوی سے انکار کیا تھا. آپ نے مطالبہ قصاصِ عثمانؓ 35 ہجری میں کیا اور اہل شام نے آپؓ کی (سیدنا معاویہؓ) بیعت 37 ہجری کے آخر ذی القعدہ میں کی ہے اور یہ بھی اس وقت جب حَکَمَین (سیدنا ابو موسی اشعریؓ اور سیدنا عمرو بن العاصؓ)قیامِ امن اور صلحِ فریقین میں کامیاب نہ ہو سکے تھے اور انہوں نے سیدنا علیؓ کی خلافت سے ہٹانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس صورتِ حال میں لوگوں میں اختلاف اور پھیلتا جا رہا تھا۔
خلیفہ ابن الخیاط لکھتا ہے.
وبايع اهل الشام لعماوية بالخلافة فى ذى القعده سنة سبع و ثلثين.
(تاریخ خلیفہ جلد 1 صحفہ 174)
ترجمہ:اور اہل شام نے سیدنا معاویہؓ کی خلافت کی بعیت 37 ہجری ذوالقعدہ میں کی ہے.
پھر یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ مصر میں بھی بعض لوگوں نے سیدنا علیؓ کی بیعت سے انکار کیا تھا اور انکار کا بھی مطالبہ تھا کہ جب تک آپؓ قاتلینِ عثمانؓ سے قصاص نہ لیں آپ کی بعیت نہ کی جائے گی. حافظ ابن کثیرؒ نے الہدایہ والنہایہ جلد 7 صحفہ 229 پر 26 ہجری کے واقعات میں ذکر کیا ہے کہ مصر میں بعض لوگوں نے سیدنا علیؓ کے مقرر کردہ عامل قیس بن سعد کی بیعت کا انکار کر دیا تھا. اسی طرح کوفہ میں سیدنا علیؓ نے عمارہ بن شہاب کو امیر بنا کر بھیجا تو وہاں طلحہ بن حویلہ نے ان سے معارضہ کیا تھا کہ جب تک قاتلینِ عثمانؓ کو نہ پکڑا جائے سیدنا علیؓ کی خلافت تسلیم نہ ہو گی سیدنا عمارہ اس پر واپس آ گئے تھے. سو مطالبہ قصاصِ عثمانؓ کی بات ہر جگہ پھیلی ہوئی تھی اس کے لیے صرف سیدنا معاویہؓ کو موردِ الزام بنانا درست نہیں ہے. ان دنوں مکہ مکرمہ میں سیدنا طلحہؓ، سیدنا زبیرؓ، سیدنا عبداللہ بن عمرؓ، یعلٰی بن امیہ(حاکمِ یمن)، سیدنا عبداللہ بن عامرؓ (حاکمِ بصرہ) پہنچے ہوئے تھے اور بعض امہات المومنینؓ بھی وہاں موجود تھیں. وہاں بھی یہی موقف اختیار کیا گیا تھا کہ سیدنا عثمانؓ کو ظلماً شہید کیا گیا ہے. ان کے خون کا بدلہ لینا قیامِ امن کے لیے ضروری ہے اور وہاں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ بصرہ پہنچ کر اس پر اجتماع کیا جائے. وہ جگہ ان دنوں ایک بڑا فوجی مرکز تھا اور وہاں کسی بغاوت کا اندیشہ نہ تھا. علامہ محمود آلوسی ؒ لکھتے ہیں.
والحوا علی امھم رضی اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہا ان تکون معھم اِلیٰ ان ترتفع الفتنة و يحصل الأمن.
(روح المعانی جلد 22 صحفہ 6)
ترجمہ: اور انہوں نے اپنی ماں (سیدہ عائشہؓ جن سے خدا راضی ہو چکا)سے بھی اصرارًا کہا کے وہ ان کے ساتھ وہاں جائیں تاکہ قتنہ اٹھ جانے اور امن عام قائم ہو جائے.