سیّدہ عائشہؓ جنگِ جمل میں جنگ کے لیے روانہ ہوئی تھیں یا اس سفر کا مقصد وہاں اصلاحِ احوال کی میٹنگ اور مشورہ تھا جس نے بعد کے ناقابلِ کنٹرول حالات میں جنگ کی شکل اختیار کر لی۔
سوال پوچھنے والے کا نام: شبیرجواب:
ام المومنینؓ کی وہاں تشریف آوری اصلاحِ احوال کے جذبہ سے تھی جنگ کے لیے نہ تھی جب آپ وہاں کے لیے روانہ ہوئیں تو آپ نے اللّٰہ ربُّ العزّت سے دعا کی تھی؛
اللھم انک تعلم انی لا ارید الا الاصلاح فاصلح بینھم
(کتاب الثقات لابن حبان جلد 2 صفحہ 280)
ترجمہ:
اے اللّٰہ تو جانتا ہے کہ میرا یہاں سے جانے کا مقصد اصلاحِ احوال کے سوا کچھ نہیں سو تو ان لوگوں میں حالات کی بہتری فرما۔
مؤرخِ اسلام حافظ شمسُ الدّین الذہبیؒ لکھتے ہیں:
انما خرجت بقصد الاصلاح بین المسلمین
(المنتقٰی صفحہ 222)
اُمُّ المومنینؓ کے بھانجے حضرت عبداللّٰہ بن الزبیرؓ اس سفر میں اُمُّ المومنینؓ کے ساتھ تھے اور راستے میں نماز کی امامت آپ ہی کراتے تھے. ان دنوں بصرہ کے حاکم سیّدنا علیؓ کی طرف سے سیّدنا عثمان بن حنیفؓ تھے. سیّدنا علیؓ اُن دِنوں بصرہ میں نہ تھے. آپ وہاں بعد میں پہنچے. بصرہ کے قبائل بنو ضبہ اور ہنوازد کو صورتِ حال سے پوری واقفیت نہ تھی. مختلف اثرات کے تحت یہ لوگ آپس میں بھی مختلف رائے ہو چکے تھے۔ وہاں منافقوں نے یہ پراپیگنڈا شروع کر دیا کہ اُمُّ المومنینؓ جنگ کے ارادہ سے یہاں آئی ہیں. سیّدنا عمار بن یاسرؓ نے ایک شخص کو اُمُّ المومنینؓ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے پایا تو فرمایا:
اسکت مقبوحاً منبوحاً والله انھا زوجة رسول الله صلی اللہ علیه وسلم فی الدنیا والآخرة.
(المصنف جلد 15 صفحہ 264)
پھر یہ بھی تاریخی حقیقت ہے کہ اُمُّ المومنین نے سیّدنا علی کو پیغام بھجوایا کہ آپ یہاں اصلاحِ احوال کے لیے آئی ہیں۔
حافظ ابنِ کثیر لکھتے ہیں:
وارسلت عائشة الی علی تعلمه انھا جاءت للصلح ففرح ھؤلاء وھؤلاء
(البدایہ والنہایہ جلد 7 صفحہ 237)
ترجمہ:
اور سیّدہ عائشہؓ نے سیّدنا علیؓ کی طرف کسی شخص کو اطلاع کے لیے بھیجا کہ آپؓ لوگوں میں صلح کے ارادہ سے آئی ہیں اس اطلاع سے دونوں طرف کے لوگ خوش ہوئے۔
(روح المعانی جلد 22 صفحہ10)