Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا علیؓ بیعتِ خلافت لینے کے بعد جب بصرہ گئے تو کیا وہ وہاں سیدنا طلحہؓ و زبیرؓ سے جنگ کے ارادہ سے آئے تھے یا وہ بھی صلح کی فضا چاہتے تھے۔ وہاں جو صلح کے حق میں تھے سیدنا علیؓ ان کے ساتھ تھے یا آپ لڑانے والوں کے ساتھ تھے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عاصم

جواب: 

پہلے جب قعقاع بن عَمْرو تمیمیؓ صحابی رسول سیدنا علیؓ کی طرف سے سیدہ ام المومنینؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور آپؓ سے استفسار کیا تھا.

اى امٌه ما اشخصك وما اقدمك ھذٰا البلدة. 

ترجمہ: اے ماں! یہاں آپ کو کس نے آگے کیا اور آپ یہاں کس لیے تشریف لائی ہیں؟

تو سیدہ ام المومنینؓ نے کہا ”ای بنی اصلاح بین الناس“ اے بیٹا میں لوگوں میں اصلاح احوال کرنے کے لیے نکلی ہوں. جب انہوں نے سیدنا علیؓ کو سیدنا طلحہؓ و زبیرؓ اور ام المومنینؓ کے اس جواب کی خبر دی تو آپ کو یہ جواب بہت پسند آیا مگر کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں یہ جواب اچھا نہ لگا. سیدنا علیؓ ان لوگوں کے ساتھ تھے جنہیں اس وقت پہلی بات پسند آئی. حافظ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:

فرجع اِلیٰ علیٍ فاخبرہ أعجبه ذلك واشىرف القوم على الصلح كره ذلك من كرهه و رضيه من رضيه. 

(البدایہ والنہایہ جلد 7 صحفہ 237)

ترجمہ:جب سیدنا قعقاع سیدنا علیؓ کے پاس آئے اور انہیں صورت حال کی خبر دی تو آپ اس سے بہت خوش ہوئے اور لوگ صلح پر تیار ہو گئے لیکن ایسے بھی تھے جہنوں نے اس صلح پسندی کس نا پسند کیا اور ایسے بھی تھے جو اس بات سے راضی تھے(اسے پسند کرنے والے تھے).

ان لوگوں کی ناراضگی سے آپ (سیدنا علی)سمجھ گئے کہ یہی لوگ ہیں جو سیدنا عثمان ؓ کے خلاف اٹھے تھے سو سیدنا علیؓ نے ارادہ کیا کہ قیام ان بزرگوں کے قریب رکھیں (جہاں سیدہ ام المومنینؓ اتری ہوئی ہیں) تا کہ بات چیت میں آسانی ہو. آپ نے اعلان فرمایا کہ آپ کل وہاں روانہ ہوں گے اور آپ نے یہ اعلان بھی کیا کہ جو شخص سیدنا عثمان ؓ کے خلاف کسی درجہ میں ملوث رہا ہو وہ ہمارے ساتھ نہ آئے آپ نے فرمایا.

الا وانى راحل غدًا فارتحِلُو ولا يرتحلن غدًا احدُٗ اعان علیٰ عثمانؓ فى شيء من امور الناس

(الفتنة و وقعة الجمل صحفہ 147 تالیف سیف بن عمرو الضبی). 

ترجمہ: خبردار میں صبح (اس دوسری جگہ) روانہ ہونے والا ہوں تم بھی وہی چلو اور وہ شخص ہمارے ساتھ نہ آئے جس نے کسی درجہ میں بھی سیدنا عثمان ؓ کے خلاف ان لوگوں کی مدد کی ہو.

اس تفصیل سے یہ بات اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ سیدنا علیؓ جنگ کے ارادہ سے بصرہ نہ آئے تھے یہ سبائی منافق تھے جنہوں نے مجلس صلح کو جنگ جمل میں بدل کر رکھ دیا اور مسلمانوں کو آپس میں لڑا دیا.

فان لله وانا اليه راجعون

اس اعلان سے یہ سبائی مُفسدین سیدنا علیؓ کے بھی خلاف ہو گئے اور آپ کو شہید کرنے کا فیصلہ کر لیا مگر جسے خدا رکھے اس کون چکھے. حضرت علامہ عبدالوھاب شعرانی ؒ لکھتے ہیں:

فان بعضهم كان عزم على الخروج على الامام علّىٍ وعلیٰ قتله لمّا نادى يوم الجمل بان يخرج عنه قتله عثمانؓ. 

(کتاب الیواقیت والجواہر جلد 2 صفحہ 77)

ترجمہ:ان میں سے بعض نے امامِ وقت سیدنا علیؓ پر خروج کرنے اور آپ کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا. یہ اس وقت ہوا جب آپ نے یوم الجمل پر اعلان فرمایا کہ عثمان ؓ کے قاتل ان کے ساتھ نہ رہیں یہاں سے نکل جائیں.

افسوس کہ یہ لوگ پھر زبردستی وہاں خروج کر آئے اور رات کی تاریکی میں دفعۃً جنگ شروع کرنے کا اعلان کر دیا. علامہ قرطبی ؒ671ھجری لکھتے ہیں.

ثم اتفقت آرائهم على ان يفترقوا فريقين ويبدوا بالحرب سحرة فى العسكرين وتختلف السهام بينهم ويصيح الفريق الذى فى عسكر على غدر طلحة والزبير والفريق الذى في عسكر طلحه والزبير غَدَرَ على. فتمَّ لهم ذلك ما على ما دبرّوه. 

(تفسیر احکام القرآن جلد 16 صحفہ 318 الحجرات)

ترجمہ: وہ (مُفسدین) اس بات پر متفق ہو گئے کے آپس میں دو فریقوں میں بٹ جائیں اور صبح دونوں طرف کے لوگوں میں جنگ کی صورت حال پیدا کریں اور آپس میں تیرزنی شروع ہو جائے اور ان کے (ان مُفسدین کے)جو لوگ سیدنا علیؓ کے ساتھیوں میں ہوں وہ پکار کر کہیں طلحہؓ اور زبیرؓ نے عہد توڑ دیا ہے اور انکا دوسرا گروہ جو طلحہؓ اور زبیرؓ کے ساتھیوں میں داخل ہوا ہو وہ پکارے علی ؓ نے غدر کیا ہے سو انہوں نے جو سوچا تھا وہ ہو کر رہا ان کی بات پوری ہوئی.

مورخ اسلام علامہ ذہبیؒ (748ھجری) بھی لکھتے ہیں 

وقع القتال بغتةً فانهم تعابتوا واتفقوا هم و على علی المصلحة واقامة الحد على قتلة عثمانؓ فتواطت القتلة على اقامة الفتنة اذًا كما اقاموها اولاً. 

(المنتقیٰ صفحہ 404)

ترجمہ: جنگ اچانک واقع ہو گئی کیوں کہ فریقین (سیدنا طلحہؓ و زبیرؓ کے ساتھی) اور سیدنا علیؓ اصلاح و احوال اور قاتلین عثمانؓ سے قصاص لینے پر متفق تھے. سو یہیں قاتلین عثمانؓ فتنہ پیدا کرنے کے لیے جم گئے جیسا کہ انہوں نے پہلے (سیدنا عثمان ؓ کے خلاف شہید کرنے کا) فتنہ پیدا کیا تھا.

قاضی صدر الدینؒ شرح عقیدہ طحاویہ میں لکھتے ہیں.

 فجرت فتنة الجمل علیٰ غیر اختیار من علی ولا من طلحة و زبیر وانما اثارها المفسدون بغير اختيار السابقين. 

(شرح عقیدہ طحاویہ صحفہ 431)

ترجمہ:سو جنگِ جمل سیدنا علیؓ کے اذن و اختیار کے بغیر واقع ہوئی اور اسی طرح سیدنا طلحہؓ اور سیدنا زبیرؓ نے اس کا ارادہ نہ کیا تھا جنگ کی آگ مُفسدوں نے (جو سیدنا عثمان ؓ کو شہید کرنے والے تھے) بھڑکائی تھی بغیر اس کے کہ پہلے لوگوں نے اس کا ارادہ کیا ہو.

 مزید تحقیق کے لیے علامہ ابن حزمؒ (456 ھجری) کی کتاب الاحکام جلد 2 صفحہ 204، امام ابن تیمیہؒ (728 ھجری)کی منہاج السنة جلد 3 صحفہ 241، حافظ ابن کثیرؒ (775ه‍جری) کی البدایہ والنہایہ جلد 7 صحفہ 239 اور علامہ محمود آلوسیؒ (1270ھجری ) کی تفسیر روح المعانی پارہ 22 صحفہ 10 کی مراجعت فرمائیں.

اگر یہ جنگ بغیر اختیار و تعین اور اندھا دھند نہ لڑی گئی ہوتی تو سیدنا طلحہؓ کے قاتلوں میں مروان بن حکم کا نام کیوں آتا وہ تو باتفاقِ فریقین سیدنا عثمانؓ کے خیر خواہوں میں تھا وہ طلحہؓ پر کیسے حملہ آور ہو سکتا تھا؟

سو یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ سیدنا علیؓ بصرہ میں جنگ کے لیے ہرگز نہ آئے تھے ان کے مزکورہ ارشادات پر نظر رکھیں اور ان کی شان میں کوئی بدگمانی نہ کریں.