سیدنا عثمانؓ پر جن لوگوں نے چڑھائی کی اور انہیں شہید کیا ان میں کیا کوئی صحابی شامل ہوا؟ کیا سیدنا علیؓ ان میں شامل تھے کیا یہ درست ہے یا آپ پر ایک تہمت ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: رؤفجواب:
حضرت شاہ ولی اللّٰه محدث دہلویؒ لکھتے ہیں ان میں سے کوئی صحابی نہ تھا نہ کوئی ان میں صحابہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین کے تابعین میں سے تھا آپ لکھتے ہیں:
قومے از مصریاں کہ نہ از صحابہ بووند و نہ از تابعین لہم باحسان بلکہ بقلت تدین موصوف و بد نہادی معروف.....بر ذو النورینؓ تصینیق نمودند.
(قرة العینین صحفہ 143)
1- محدث جلیل امام نوویؒ (676هجری) میں لکھتے ہیں:
ولم يشارك في قتله احد من المعاوية.
(شرح صحیح مسلم جلد 2 صفحہ 143)
2- ولم يكن معهم من الصحابة احد فنقبّوا جدارہ ادخلوا علیه وقتلوه مظلوماً.
(کتاب التمہید صحفہ 164)
3- علامہ ابن کثیرؒ (774 ھجری) بھی لکھتے ہیں:
ولیس فیه احد من الصحابة
(البدایہ و النہایہ جلد 7 صحفہ 185)
4- قاضی ابوبکر ابن العربیؒ (543 هجری) بھی رقمطراز ہیں:
ان احد من الصحابة لم یسع عليه ولا قعد عنه.
(العواصم بن القواصم صحفہ 136 طبع لاہور)
سیدنا علیؓ ان میں ہر گز شامل نہ تھے آپؓ نے بارہا خونِ عثمانؓ سے لا تعلقی کا اظہار فرمایا ہے سیدنا امیر معاویہؓ کی یہ رائے صحیح نہ تھی کہ سیدنا علیؓ جان بوجھ کر سیدنا عثمانؓ کے قاتلوں کو نہیں پکڑتے.
جن لوگوں نے عمرو بن الحمق جیسے لوگوں کو اس قتل میں شریک ٹھہرایا ہے ان کی روایات قاطبةً غلط ہیں ان میں کوئی روایت بھی سنداً صحیح نہیں.
ابنِ میم بحرانیؒ بھی لکھتے ہیں:
انّه لزم بيته وانعزل عنه بعد ان دافع عنه طويلاً بيده ولسانه فلم يمكن الدفع.
(شرح نہج البلاغہ جلد 4 صحفہ 345)
ترجمہ: آپؓ پھر اپنے گھر آ کر بیٹھ گئے. آپؓ سے بعد اس کے کہ کافی عرصہ تک ہاتھ اور زبان سے آپؓ کی مدافعت کرتے رہے کنارہ کش ہو بیٹھے. حملہ آوروں کو اب روکنا آپؓ کے بس میں نہ تھا۔