Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

بندہ ہفت روزہ "دعوت" کا خریدار ہے اور میرا خریداری نمبر 192 ہے. ایک سوال کا جواب دعوت میں شائع فرمائیں یہاں کے شیعہ حضرات ظہر اور عصر ملا کر پڑھتے ہیں اور اسی طرح مغرب اور عشاء ملا لیتے ہیں حالانکہ ابھی عشاء کا وقت نہیں ہوتا ان میں ان سے پوچھا تو وہ کہنے لگے اہلِ سنّت کی کتابوں میں بیسیوں حوالے ایسے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے کبھی کبھی دو نمازیں ملا کر پڑھی ہیں اس کی وضاحت فرمائیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد بخش فاروقی. از رجوعہ سادات تحصیل چنیوٹ

جواب:

قرآن عزیز کا ارشاد ہے:

انّ الصلوٰة كانت على المؤمنین کتاباً موقوتاً

(پارہ 5، سورۃ النساء، آیت 103)

ترجمہ: نماز مومنوں پر بہ قید وقت فرض کی گئی ہے۔

بس کوئی ایسی روایت جس میں کسی نماز کے اس کا وقت ہونے سے پہلے ادا کرنے کا بیان ہو قرآن عزیز کے اس واضح فیصلے کی معارض ہوگی اور ظاہر ہے کہ اس کا اعتبار نہیں ہو سکتا یا اس کی سند میں کوئی خلل ہوگا یا ادا قبل از وقت پر اس کی دلالت قطعی نہ ہوگی۔

یہ حضرات جن احادیث سے نماز جمع کرنے پر استدلال کرتے ہیں ان میں اس امر کی صراحت نہیں کی کہ آنحضرتﷺ نے کوئی نماز اس کا حقیقی وقت آنے سے پہلے ادا کی ہو بلکہ ان روایات کا حاصل یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کبھی ظہر کو اس کے آخری وقت میں اور عصر کو اپنے اول وقت میں ادا فرماتے اور اسی طرح کبھی مغرب کو اس کے آخیر وقت میں اور عشاء اپنے اول وقت میں ادا فرماتے. اس طرح نمازوں کا جمع کرنا جمع حقیقی نہیں جمع صوری ہے. کیونکہ ہر نماز اپنے اپنے وقت میں ادا ہوتی ہے کوئی اپنے آخری وقت میں اور کوئی اپنے اول وقت میں. ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں.

كان رسول الله صلى الله عليه واله وسلم فى السفر يؤخر الظهر ويقدم العصر و یؤخر المغرب ویقدم العشاء

(اس حدیث کو امام ,امام احمد,امام حاکم نے روایت کیا ہے اور اس کی سند حسن ہے) 

ترجمہ: آنحضرتﷺ سفر میں بھی ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم فرما لیتے اور اسی طرح کبھی مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کر لیتے۔

اگر اس تدبیر کے بغیر کوئی اور صورتِ جمع بھی جائز ہوتی تو آنحضرتﷺ یہ تکلف ہرگز اختیار نہ فرماتے. پس مسئلہ یہی ہے کہ ہر نماز صرف اپنے ہی وقت میں ادا ہو سکتی ہے الا یہ کہ جمع صوری ہو جائے کہ ایک نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری اپنے اول وقت میں ادا ہو جائے اور ظاہر ہے یہ جمع حقیقی نہیں۔