Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ایک ہفت روزہ اخبار نے 2 جون کی اشاعت میں غالباً آپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا ہے کہ آپ سیّدنا علی المرتضیؓ کو بھی قتلِ عثمانؓ کا ذمہ دار بلکہ حصہ دار گردانتے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ سیدنا علی مرتضیؓ نے تو سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہیں کیا تھا. معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ان امور کی تفصیل فرمائیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   اویس احمد شبلی از کرشن نگر لاہور

جواب: 

راقم الحروف اہلِ سنت و الجماعت عقائد کا پابند اور فروعی مسائل میں حضرت امام اعظمؒ کے مسلک پر ہے. میرا مسلک کوئی نیا یا آوارہ مسلک نہیں کہ کسی کو میرے خود ساختہ مسائل یا میری اختیار کردہ نئی نئی تاویلات کسی تجسس اور بحث پر آمادہ کریں. سیدنا علی مرتضیؓ کے متعلق میرا وہی عقیدہ ہے جو اکابر امت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ، امام ربانی مجدد الف ثانیؒ، شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ، شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ اور جمہور علمائے اہل سنت کا ہے اور میرے اس پر متصلب ہونے کی شہادت دارالعلوم دیوبند سے لے کر جامعہ اشرفیہ لاہور تک سے مل سکتی ہے. ناموسِ صحابہؓ کے موضوعات جو شیعہ کے اٹھائے ہوئے ہیں ان میں بریلوی مسلک کے علماء و مشائخ کی بھی مجھے پوری تائید حاصل رہی ہے اور احقر نے بارہا ان مسائل پر صاحبزادہ قمر الدین صاحب سجادہ نشین سیال شریف اور کئی دوسرے مشائخ سجادہ نشین کی صدارتوں میں اپنے خیالات اور تحقیقات کا اظہار کیا ہے اور اب بھی کئی دفعہ ان جیسے حضرات کی طرف سے دعوت ہوتی ہے کہ احقر ان کے علاقوں میں حاضر ہو کر مسلک اہلِ سنت کی تائید اور اثبات میں کوئی علمی اور مسلکی خدمت کرے. احقر مغربی پاکستان کے اس سنی بورڈ کا بھی ایک رکن رہا ہے جس کے دوسرے ارکان شیخ التفسیر حضرت مولانا احمد صاحب لاہوریؒ، مولانا ابو الحسنات، مولانا سید محمد داؤد غزنویؒ، مولانا مفتی جمیل احمد تھانویؒ وغیرہ کئی بزرگ تھے. نہایت تعجب ہے کہ معاصر موصوف نے یہ سوال ایک ایسے شخص کے متعلق اٹھایا ہے جس کی مسلکی حیثیت پاکستان اور ہندوستان کے علمی حلقوں میں اپنی جگہ پوری معین ہے اور جس کے موقف پر بیرونی ممالک کے لاکھوں افراد بھی پورا اعتماد رکھتے ہیں. سیدنا علی المرتضیؓ خلافتِ راشدہ کے خلیفۂ راشد تھے. امام مظلوم امیر المومنین سیدنا عثمان ذو النورینؓ کے خون سے بالکل بری اور پاک تھے اورسیدنا امیر معاویہؓ کے مقابلے میں زیادہ صائب تھے. یہ علیحدہ بات ہے کہ سیدنا امیر معاویہؓ بھی کسی خطائے اجتہادی پر رب العزت کے ہاں مثاب و ماجور ہوں. مگر احقر اپنے بزرگوں کی اتباع میں سیدنا علیؓ کو ہی خلیفہ برحق مانتا ہے میں اب ہی اس عقیدہ کی صراحت نہیں کر رہا میری برسوں پہلے کی باز تصنیفات میں بھی اس امر کی پوری صراحت موجود ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓ کا دامن سیدنا عثمان ذو النورینؓ کے خون سے بالکل بری اور پاک تھا. باقی یہ بات کہ احقر نے پچھلے دنوں لاہور میں کسی تقریر میں کہا ہے کہ سیدنا علی المرتضیؓ کا سیدہ زہراؓ کے ساتھ کوئی اچھا سلوک نہ تھا تو یہ ایک کذب اور سراسر جھوٹ ہے پچھلے دنوں کی بات تو درکنار احقر جب سے لاہور میں اقامت پذیر ہے اس موضوع پر کبھی میری تقریر نہیں ہوئی۔

فلعنة اللّٰہ علی الکاذبین

اگر کوئی شخص پچھلے پانچ سال سے اس بات کی کوئی جھوٹی رپورٹ بھی دکھا دے تو احقر پھر اس کی پوری وضاحت کر سکے گا اور اگر یہ سال ہا سال کے پرانے غلط الزامات اور شیعہ حضرات کے جھوٹے بہتانات ہیں جن کی پوری تردید اسی دور میں کر دی گئی تھی تو پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ معاصر موصوف شیعہ رضاکار جیسے شیعہ جرائد کی زلہ ربائی کیوں کر رہے ہیں یہ محض آپ کے استفسار کا جواب تھا ورنہ ان باتوں میں الجھنے کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔

واللہ اعلم بالصواب