جناب رسول کریمﷺ نے جب سیدہؓ اور حضرات حسنین کریمینؓ کو ایک چادر میں لے کر ان بزرگوں پر بمع سیدنا مولا علیؓ کے آیتِ تطہیر پڑھی تھی تو سیده ام سلمہؓ نے پوچھا تھا یا رسول اللہﷺ کیا میں اہل بیت میں سے نہیں اس کے جواب میں حضور اکرمﷺ نے کیا فرمایا تھا؟ شیعہ علماء کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے صرف یہ کہا تھا کہ تو بھی اچھے مقام پر ہے . ”انک علی خیر“ لیکن یہ نہیں کہا تھا کہ تو بھی اہل بیت میں داخل ہے اس کی تحقیق مطلوب ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبد الغفار از ڈیرہ غازی خانجواب:
آنحضرتﷺ نے سیدہ ام سلمہؓ کو صرف اتنا ہی نہ کہا تھا ”انک علی خیر“ (کہ تو بھی اچھے مقام پر ہے) بلکہ ان کے اس سوال پر”ألست من اھلک“ (کیا میں آپ کے اہلِ بیت میں سے نہیں) ارشاد فرمایا تھا
”بلٰی“ (کیوں نہیں) یعنی ہاں تو بھی میرے اہل بیت میں سے ہے. اہلِ سنّت کی کتابوں میں سے مسند امام احمد ؒ میں یہ روایت موجود ہے اور اہل تشیع کے ہاں بحار الانوار جلد 10 صحفہ 269 پر یہ روایت ملتی ہے. اور حضرات امہات المومنینؓ کا اہلِ بیتِ نبوی میں سے ہونا صرف اس ایک روایت پر موقوف نہیں خود قرآن پاک اپنی اعجازی ترتیب سے ان کے اہلِ بیت ہونے پر نص فرما رہا ہے. سورۃ الاحزاب پارہ 22 کے شروع میں آنحضرتﷺ کی ازواجِ مطہرات کا ذکر ہے اور اس کے ساتھ ہی رب العزت نے آیتِ تطہیر اتاری ہے ارشاد فرماتے ہیں:
”انما یرید اللّٰهُ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت و یطھرکم تطہیرا“
یہ آیت اپنے سیاق و سباق سے اس امر پر نص کر رہی ہے کہ یہاں اہلِ بیت سے مراد ازواج مطہرات ہی ہیں. تذکیر کے صیغے لفظ اہل کی رعایت سے ہیں یہ لفظ عربی میں مذکر آتا ہے اور اس پر قرآن کریم کی اور بھی بہت سی آیات شاہد ہیں. علاوہ ازیں بعض ایسے مقامات ابھی ہوتے ہیں جہاں صیغہ تذکیر کسی اشتباہ کا موجب نہیں.
کما قال الحماسی
فلا تحسبی انی تخشعت بعدھم
لشیء ولا انی من الموت افرق
فلا تحسبی کا مخاطب ہوں یقینی طور پر مؤنث اور بعدکم میں بھی وہی مخاطب ہے اور ضمیر مذکر ہے۔
واللہ اعلم بالصواب