ایک افسر نے جو شعیہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اہلِ سنّت کی کتابوں کے مجھے کُچھ حوالے دکھائے ہیں جن میں آیات کی صورت موجودہ قرآن سے ذرا مختلف ہے مثلاً دُرِّ منثور جلد 2 صفحہ 298 میں, پھر اسی درِ منثور جلد 5 صحفہ 192 میں آیات کُچھ اس طرح درج ہیں کہ ان میں تبدیلی کا شبہ ہوتا ہے. کیا ہمارے کچھ بزرگ بھی قرآن مجید میں کمی بیشی کے قائل تھے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد یعقوب، مسلم کتاب گھر چنیوٹ ضلع جھنگجواب:
قرآن پاک صحابہ کرام رضوان اللّٰہ عَلَیْہِمْ اجمعین کے پاک ہاتھوں سے جمع ہوا. سیدنا صدیق اکبرؓ نے اسے آنحضرتﷺ کی اختیار کردہ ترتیب کے مطابق یکجا لکھایا. سیدنا عمر فاروقؓ اس میں مشیر تھے. کاتبِ وحی سیدنا زید بن ثابتؓ نے اسے لکھا. سیدنا عثمان ذو النورینؓ نے اس کی نقلیں کرائیں ہے. ایک لغتِ قریش پر جمع کیا اور مختلف بلادِ اسلامیہ میں اس کی نقول بھیجوائیں. اب مقامِ غور ہے کہ اہلِ سنّت والجماعت جو جمیع صحابہ کرام رضوان اللّٰہُ عَلَیْہِمْ اجمعین بالعموم اور ان صفِ اوّل کے صحابہؓ کو بالخصوص ہہت اعتبار سے اپنا مقتدا پیشوا اور امام سمجھتے ہیں انہیں اس قرآن میں کیسے شک ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر صحابہؓ کی مقدس جماعت پر اعتماد نہ ہوتا. (معاذ اللّٰه) پھر اس قرآن عزیز میں البتہ شک کی بہت راہیں نکل سکتی تھیں. آپ کے اس دوست نے آپ کو جو حوالے دکھائے ہیں وہ اہلِ سنّت کی معتمد اور معتبر کتابوں میں سے نہیں. بلکہ طبقہ رابعہ کی کتابوں میں سے ہیں جو اپنے مصنفین کی نزدیک بھی منفتح اور تحقیق شدہ درجے کی نہ تھیں. علامہ سیوطیؒ نے در منثور میں ہر طرح کی صحیح و سقیم اور رطب و یابس روایات جمع کر رکھی ہیں جن میں شعیہ راویوں کی بھی نقول درج ہیں. علامہ سیوطیؒ نے ان کا تنقیدی محاسبہ نہیں کیا، صرف ذخیرہ جمع کر دیا ہے. تحقیق اور تنقیح پڑہنے والوں کے ذمہ لگائی ہے. وہ اسے در منثور سے موسوم کرتے ہیں جن کے معنی ہیں"بکھرے ہوئے موتی" پس جب کہ یہ حوالے مصنف کے اپنے نزدیک بھی ایک تحقیق شدہ درجے میں نہیں. بلکہ منتشر اور متفرق روایات کا ایک ذخیرہ ہیں تو ان پر اعتماد کر کے قرآن میں کمی بیشی کا قول کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ان سے امام سیوطیؒ کے اپنے اعتماد کے متعلق کسی قسم کے شک کو جگہ دی جا سکتی ہے. شاہ ولی اللّٰه محدث دہلویؒ نے "قرة العَينَين" میں اور شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے "عجالۂ نافعہ" میں امام سیوطیؒ کی ایسی تصانیف پر اس انداز میں تنقید فرمائی ہے. علاوہ ازیں امام سیوطیؒ اکثر ایسی غیر معتبر روایات کی سند پیش کر دیتے ہیں جس سے اتنی ذمہ داری علامہ سیوطیؒ پر عائد نہیں ہوتی جتنی خود ان راویوں پر عائد ہوتی ہے جو اسے روایت کرتے ہیں. آپ نے جس قسم کے حوالے پیش کئے ہیں شعیہ راویوں کی اپنی اختراع ہیں اور علامہ سیوطیؒ نے انہیں کذّاب اور وضّاع قسم کے روایوں کے حوالہ سے ہی پیش کیا ہے. پس اس سے علامہ سیوطیؒ پر یا مذہبِ اہلِ سنّت پر کوئی الزام عائد نہیں ہوتا یا ایسے حوالوں میں کُچھ ایسے جملے ملحِق ہوتے ہیں جو ہو سکتا ہے کہ منسوخ التلاوة اجزاء پر مشتمل ہوں یا بسا اوقات ہوتا ہے کہ وہ مفسرین کے اپنے تشریحی اقوال اور تفسیری جملے ہوں. ان حوالوں کی تحقیق اور پھر ہر ایک کے محل کو پہچاننا اور ہر روایت کو اپنے اپنے محل پر محمول کرنا اس کے لیے پوری علمی شان درکار ہے. عوام کو علمی اور اخلاقی اعتبار سے یہ حق قطعاً حاصل نہیں کہ وہ ایسے چند حوالے دیکھ کر خود اپنے ایمان میں ہی تردّد کر بیٹھیں اور قرآن کریم میں شک کرنے لگیں. واللّٰه ھو العلیم الحفیظ.