Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

آپ نے یہاں ایک دفعہ تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملّت کو اِنتشار اور آوارگی سے بچانا اتنا اہم اور ضروری ہے کہ اس کے لیئے امرِ ضروری اور امرِ واجب کو بھی ترک کرنا پڑے تو شریعت اس کی اجازت دیتی ہے۔ اس کی تحقیق اور اس پر حوالہ درکار ہے۔ تاکہ اس سے پیدا شدہ غلط فہمیوں کا پوری طرح ازالہ ہو سکے۔

سوال پوچھنے والے کا نام:   منظور احمد آریہ محلہ راولپنڈی

جواب:

 سجدۂ سَہَو ساقط ہونے کی ایک صورت سامنے رکھئیے ، نماز میں ترکِ واجب پر سجدۂ سَہَو لازم آتا ہے۔ اور اسے ادا کرنا واجب ہے۔ مگرایسی جماعات جن میں مقتدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہو۔ آخری صف اور امام میں اتنا زیادہ فاصلہ ہو کہ امام کی حرکات آسانی سے مقتدیوں تک منتقل نہ ہوسکتی ہوں اور اندیشہ ہو کہ شاید امام اور مقتدیوں میں ہم آہنگی نہ رہ سکے تو اس صورت میں سجدۂ سَہَو٘ ساقط ہو جاتا ہے۔ کیونکہ فتنہ اور انتشار کے جو مظنات یہاں ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں، فقہائے کرام نے اس آوارگی اور اِنتشار سے بچنے اور جماعت کو بچانے کی بہت تاکید کی ہے۔ لوگوں میں انتشار کے اندیشے میں وہ سجدۂ سَہَو کو واجب قرار نہیں دیتے۔ یہی متأخّرین حنفیہ کا مُختار ہے۔ 

دُرِّ مُختار میں ہے؛

 والسهر في صلٰوة العيد والجمعة والمكتوبة والتطوع سواء والمختار عند المتأخرين عدمه في الاولين لدفع الفتنة كما في جمعة البحر

 اس سے معلوم ہوا کہ جمعہ اور عید کی نماز میں جب کہ مقتدیوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور آخری صف کے نمازیوں سے اِمام کا اتنا فاصلہ ہو جاتا ہے کہ سجدۂ سَہَو کی صورت میں بہت سے فتنے پیدا ہوتے نظر آتے ہوں تو ایسی صورت میں اگر واجب ترک بھی ہو جائے یا فرض میں تاخیر ہو جائے تو سجدۂ سَہَو لازم نہیں آتا. 

(منقول از فتاویٰ دارلعلوم دیوبند جلد 7 صفحہ 270)

اِس سے معلوم ہوا کہ شریعت نے فتنہ و اِنتشار سے بچنے اور بچانے کو کتنی اہم نظر سے دیکھا ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے راولپنڈی میں کیا بیان کیا تھا۔ سوال کی صورت سے ذہن اس طرف گیا ہے کہ اگر کچھ اس سلسلہ میں بیان ہوا ہو گا تو یہی کچھ ہوگا۔

 واللّٰہ اعلم بالصواب۔

 كتبه خالد محمود عفا اللّٰہ عنہ