Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا سیدہ فاطمۃ الزہراءؓ باغِ فدک مانگنے کے لیے سیدنا صدیق اکبرؓ کے پاس تشریف لے گئیں؟ نیز مطلع کریں کہ آنحضرتﷺ نے اپنے حینِ حیات باغ فدک سیدہ فاطمہؓ کو دے دیا ہوا تھا یا نہیں؟ جب آنحضرتﷺ کی اور بھی بیٹیاں تھیں تو صرف انہوں نے کیوں حقِ وراثت مانگا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد ممتاز الرحمٰن صدیقی از جامع مسجد سرگودھا

جواب: 

سیدہ فاطمتہ الزہراؓ کا باغ فدک کے لیے تشریف لے جانا کوئی یقینی نہیں یہ صحیح ہے کہ بعض روایات میں آپ کا جانا ”جاءت“ کے لفظ مذکور ہے لیکن بخاری کے بعد دوسری روایات میں لفظ ”ارسلت“ بھی موجود ہے کہ سیدہؓ نے کسی دوسرے شخص کو اپنا پیغام دے کر بھیجا تھا بعض راویوں نے اس بھیجنے کو مجازاً جانے سے تعبیر کر دیا ہے سیدہؓ کا خود جانا ایک امرِ مشتبہ ہے جس کا دعویٰ یقینی طور پر نہیں کیا جا سکتا نہ یہ حضرت کی شان کے مناسب معلوم ہوتا ہے۔

ثانیا: یہ امر صحیح نہیں کہ حضورﷺ نے اپنی زندگی میں باغِ فدک حضرت سیدہؓ کو ہبہ کر دیا تھا. ہبہ کی تمام روایات اسنادًا صحیح نہیں اور بیشتر وضاع و کذاب قسم کے راویوں پر مشتمل ہیں بلکہ سنن ابی داؤد میں ہے کہ سیدہؓ نے ارض فدک کا سوال خود آنحضرتﷺ کی زندگی میں کیا تھا اور حضور اکرمﷺ سے ہی کیا تھا اور حضور اکرمﷺ نے دینے سے انکار کر دیا تھا (دیکھیے سنن ابی داؤد جلد 2 صحفہ 415) پس جب کہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی تمام عملی زندگی حضور اکرمﷺ کے منہاج پر قائم تھی تو یہ کس طرح ہو سکتا تھا کہ سیدنا صدیق اکبرؓ آنحضرتﷺ کے فیصلے کے خلاف باغِ فدک سیدہؓ کو دے دیں. سیدنا ابوبکرؓ خود ارشاد فرماتے ہیں:

انّی والله لا غير شياءً من صدقات النبي صلى الله عليه وسلم التى كانت عليها فى عهد النبي صلى الله عليه وسلم لا عملّن فيها بما عمل فيها النبي صلى الله عليه وسلم فتشهد علی ثم قال انا قد عرفنا يا ابی بکر فضیلتك. 

(بخارى جلد 1 صحفہ 526) 

ترجمہ:خدا کی قسم یہ چیزیں جس طرح آنحضرتﷺ کے زمانے میں تھیں میں ان میں کچھ بھی تبدیلی نہ کروں گا اور ان امور میں میرا عمل اسی طریق پر ہوگا جو خود حضورﷺ کا طریقِ عمل تھا اس پر سیدنا علی المرتضیؓ نے سیدنا ابوبکرؓ کے اس ارشاد کی تصدیق فرمائی اور کہا کہ اے ابوبکرؓ ہم نے آپ کی فضیلتِ شان کو پہچان لیا ہے۔

آنحضرتﷺ کی دوسری بیٹیاں خود آنحضرتﷺ کی زندگی میں ہی فوت ہو چکی تھیں اس لیے ان کے حقِ وراثت یا طلبِ وراثت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اگر حضورﷺ کی دوسری بیٹیاں زندہ ہوتیں تو آپ انہیں دعوتِ مباہلہ کے وقت ساتھ کیوں نہ لے جاتے. یہ دعوت مباہلہ کا واقعہ حضورﷺ کہ اواخرِ حیات میں پیش آیا اور اس وقت حضورﷺ کی کوئی بیٹی سیدہؓ کے سوا زندہ نہ تھی۔

اس مسئلے کی مکمل تفصیل کے لیے امام پاکستانی حضرت مولانا سید احمد شاہ صاحبؒ چوکیردی کی کتاب تحقیقِ فدک لاجواب ہے آپ اس کا مطالعہ فرمائیں. یہ کتاب ان شاء اللہ جامع و مانع ہوگی اور تحقیق کے اعتبار سے بمالا مزید علیه کا مصداق۔

واللہ اعلم بالصواب