Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

قرآن پاک کا اردو ترجمہ عربی متن کے بغیر شائع کرنا کیسا ہے اور قرآن کے محض اردو ترجمے کو قرآن کہہ سکتے ہیں یا نہیں اس کی تفصیل کیجئے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عبد الجبار غلہ منڈی خانیوال

جواب:

اس مسئلہ کا سامنا اس پر موقوف ہے کہ قرآن کریم اپنے الفاظ اور معانی ہر دو ابواب میں شانِ اعجاز رکھتا ہے یا نہیں اور اس کے الفاظ اور معنی ہر دو معجزہ ہیں یا نہ؟ ہمارا موقف اس باب میں یہی ہے کہ قرآن کریم لفظ اور معنی دونوں طرح سے شانِ اعجاز کا حامل ہے. قرآن پاک کو اگر کسی اور زبان میں منتقل کریں تو اگر معنی و مطالب ویسے کے ویسے ہی نظر آئیں تو بھی ان کے الفاظ اور ترکیب خالق کے اختیار کردہ نہیں بلکہ مخلوق اختیار کردہ ہوں گے اور ظاہر ہے کہ اس میں کوئی اعجاز نہیں. یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کہ جتنے بھی تراجم ہیں الفاظ اور ترکیب کے لحاظ سے سب آپس میں مختلف ہیں. حافظ ابنِ رجب 795ھجری نے القواعد کے نام سے اسلام کے کچھ ضروری آداب و قواعد نہایت نفیس انداز میں ترتیب دئیے ہیں اس میں قاعدہ عاشرہ کے ماتحت لکھتے ہیں.

”منها ما يعتبر لفظه و منعاہ وهو القراٰن لا عجازه بلفظه و منعاه فلا يجوز الترجمة عنه بلغةٍ اخریٰ“

(القواعد للحافظ عبد الرحمن بن رجب صفحہ 13مصر) 

ترجمہ:یعنی قرآن کریم لفظ اور معنی دونوں اعتبار سے شانِ اعجاز رکھتا ہے. پس اس کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنا جائز نہیں. ہاں اگر اس طرح ہو کہ عربی متن بھی ساتھ ہی شامل رہے تو پھر ترجمہ کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن وہ اردو ترجمہ قرآن نہیں کہلائے گا اسے صرف ترجمہ ہی کہا جائے گا قرآن وہی ہے جو عربی میں ہے اور عربیت کی صفت قرآن کریم سے ایک لمحے کے لیے جدا نہیں کی جا سکتی۔

قال اللہ تعالیٰ:

”انا جعلناه قراٰناً عربیاً لعلکم تعقلون.“

 (پارہ 25 سورہ زخرف رکوع 1)

ترجمہ: ہم نے کیا ہے اسے قرآن، عربی کا تاکہ تم سمجھ سکو۔

فقیہ شہیر علامہ برہان الدینؒ صاحبِ ہدایہ کتاب التجنیس میں رقمطراز ہیں:

”ويمنع من كتابه القراٰن بالفارسيه بالاجماع لانّه يوّدى للاخلال بحفظ القراٰن لانا امرنا بحفظ الفظم والمعنى جمیعاً فانه دلالة على النبوّة“

ترجمہ: قرآن مجید کو غیر عربی میں لکھنا ممنوع ہے کیونکہ ایسا کرنا قرآن کریم کے محفوظ رکھنے پر اثر انداز ہوگا اور ہم لوگ قرآن کے الفاظ اور معنی دونوں کی حفاظت کے لیے مامور ہیں اور یہ نبوت کا ایک معجزہ ہے۔

مزید تفصیل کے لیے فتحُ القدیر باب کیفیة الصلاۃ جلد ایک صفحہ 201 مصر، ردالمختار شامی جلد ایک صفحہ 385، کفایہ شرح ہدایہ بہامش الفتح 249 اور مغنی ابنِ قدامة جلد ایک صفحہ 540 وغیرھا من المعتبرات کی طرف مراجعت کی جائے۔

واللہ اعلم بالصواب