Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

براہ کرام ہفت روزہ "دعوت" میں مندرجہ ذيل امور کا جواب دیں. دلائل ایسے قطعی ہوں کہ ان کی تاویل نہ کی جا سکتی ہو۔ 1: مرزا قادیانی نبی کیوں نہیں تسلیم کئے جاتے؟ 2: مرزا صاحب مجدّد کیوں نہیں تسلیم کئے جاتے؟ 3: مرزا صاحب عالم کیوں نہیں تسلیم کئے جاتے؟ 4: مرزا صاحب عابد و زاہد کیوں نہیں تسلیم کئے جاتے؟ 5: مرزا غلام احمد قادیانی مسلمان کیوں نہیں تسلیم کئے جاتے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   نذیر احمد بٹ، رحیم سٹریٹ سردار پورہ اچھرہ لاہور

جواب:

مرزا صاحب نبی اس لئے تسلیم نہیں کیے جا سکتے کہ وہ حضورﷺ کے بعد تیرہویں صدی میں پیدا ہوئے اور حضور خاتم النبیینﷺ کے بعد میں پیدا ہونے والا کوئی شخص کبھی نبی نہیں ہو سکتا. سیدنا عیسیٰؑ اپنی آمد پر محض اس لیے نبی تسیلم کر لیے جائیں گے کہ وہ حضور ختمی مرتبﷺ سے بہت پہلے کے پیدا ہوئے ہیں مگر آنحضرتﷺ کے بعد پیدا ہونے والا شخص نبی نہیں ہو سکتا. کیونکہ ہر طرح کی نبوت حضورﷺ پر ختم ہو چکی ہے اور وحی نبوت کا سلسلہ منقطع ہو چکا ہے. علاوہ ازیں پیغمبروں کی شان یہ ہے کہ وہ اللّٰه رب العزّت کے سواء کسی سے نہیں ڈرتے. قال اللّٰہُ تَعَالٰی:

 الذين یبلّغون رسالات اللّٰه ويخشونه ولايخشون احدًا الا اللّٰه.

(پارہ 22 سورة الاحزاب آیت 39)

ترجمہ: جو لوگ اللّٰه تعالیٰ کی رسالت آگے پہنچاتے ہیں. اور وہ اسی سے ڈرتے ہیں اور اسکے سواء کسی سے نہیں ڈرتے.

اور مرزا صاحب انگریزوں سے ڈرتے تھے مسلمانوں سے ڈرنے کا ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے حج نہیں کیا تھا اور محض اسی لیے نہیں کیا تھا کہ انہیں حجاز کے مسلمانوں سے جان کا خوف تھا اور پھر یہ نہیں کہ یہ ڈر کوئی امرِ وقتی تھا بلکہ زندگی بھر مرزا صاحب کے ساتھ رہا اور انگریزوں سے ڈرنے کی دلیل یہ ہے کہ ڈوئی کی عدالت میں انہوں نے محض ڈرتے ہوئے اپنے طریقِ کار کے خلاف آئندہ ضمانت کے طور پر دستخط کر دیئے تھے اور پھر ساری عمر انگریزوں کی مدح خوانی اور سلطنتِ برطانیہ کی قصیدہ خوانی کرتے رہے پس ایسے اشخاص کے متعلق جن کی قلبی اور ذہنی کیفیت اس قدر کمزور ہو نبوت کے تصّور کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.

2: مرزا صاحب مجدّد اس لئے تسلیم نہیں کیے جا سکتے کہ مجدّد کا کام قوم کو پہلی بدعات اور پہلی آلائشوں سے نجات دلاتا ہے جو زمانے کے تاثرات اور رسم و رواج سے وہ داخلِ دین کر چکے ہوں اور وہ بھی زیادہ تر علمی میدان میں معروف کے قیام اور منکرات کی روک تھام کے لیے عمل میں آتا ہے. مرزا صاحب بجائے اس کے کہ قوم کو کسی پہلے انتشار سے نجات دلاتے خود ایک وجہ انتشار بن گئے بجائے اس کے کہ پہلی فرقہ بندی میں کُچھ کمی ہوتی ایک اور فرقے کا ان میں اضافہ ہو گیا اور وہ فرقہ بھی ایسا بنا جو پُوری قوم سے کٹ کر ایک جداگانہ ملّت بن گیا. پس جب کہ مرزا صاحب کا کام کوئی مجدّد دین سابقین کے منہاج پر نہ تھا انہیں مجدّد کس طرح تسلیم کیا جا سکتا ہے.

3: مرزا صاحب کو ایک عالِم اس لیے تسلیم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معقول، منقول اور ادب ہر اعتبار سے کمزور اور خام تھے. ادَبِ عربی کے اعتبار سے وہ متعدد غلطیوں کے مرتکب ہوئے. جن کی تفاصیل سب اہنی اپنی جگہ موجود ہیں. منقول میں بھی انہوں نے بہت سی غلطیاں کی ہیں. حدیث کی بحث کرتے ہیں تو قواعدِ محدثین اور ادبِ محدثین سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں. تفسیر کرتے ہیں تو قرآنی علوم سے خالی نظر آتے ہیں. علیٰ ہذا قیاس ان میں کوئی علمی ممتاز شان نہ تھی کہ انہیں امتیازی طور پر عالِم تسلیم کیا جائے.

4: مرزا صاحب کا غیر محرم عورتوں سے عام اختلاط اور متعدّد غلط بیانیوں کا ارتکاب انہیں ایک زاہد اور پرہیز گار انسان سمجھنے کی اجازت نہیں دیتا.

5: مرزا صاحب کو مسلمان تسلیم کرنے سے یہ امور مانع ہیں:

1: انہوں نے مراق سے افاقہ کی حالت میں بھی ختمِ نبوت کے ان معنوں کا انکار جاری رکھا جو آنحضرتﷺ سے لے کر آخر تک امتِ مسلمہ نے بالاجماع سمجھ رکھے تھے اور ختم نبوت کا انکار ایک مستقل وجہِ کُفر ہے.

2: انہوں نے سیدنا عیسیٰؑ کی توہین کی اور انہیں بہت نامناسب الفاظ کے ساتھ ذکر کیا اور قاعدہ شرعیہ ہے کہ نبی کی توہین اور اس کی شان میں کسی قسم کی گستاخی ہر دو موجبِ کُفر ہیں.

3: مرزا صاحب نے بعض اُن امور شرعیہ کو جو حضور ختمی مرتبﷺ کی شریعت میں عبادات تھے حرام قرار دے کر تحریمِ حلال اور تحلیلِ حرام کا ارتکاب کیا. جیسے جہاد کو حرام قرار دینا وغیرہ. واللہ اعلم بالصواب