Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ربیع الاول میں پہلی تاریخ سے لے کر 12 تاریخ تک حضور سرورِ کائناتﷺ کی یاد میں جلسے اور جلوس قائم کیے جاتے ہیں کیا یہ بدعت نہیں؟ 2- سیدنا علیؓ اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے آپس میں تعلقات کیسے تھے؟ 3_ سیدنا حسینؓ کا جو وظیفہ مقرر تھا وہ سیدنا امیر معاویہؓ نے بند کیا یا ان کے بعد بند ہوا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد یار خاں نمبردار خریدار”دعوت“ 198 ٹبی سولگیاں تحصیل جام ضلع ڈیرہ غازی خاں

جواب: 

کسی عمل پر بدعت کا حکم لگانے سے پہلے بدعت کا معنی معلوم کر لینا چاہیے بدعت اسے کہتے ہیں کہ جو کام دین کا نہ ہو اسے دین سمجھ کر کیا جائے. حضور اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا:

”من احدث فى امرنا ھذٰا ما ليس منه فهو ردّ“

(مشكوٰة صحفہ 27) 

ترجمہ:جس نے دین اسلام میں کوئی نئی بات داخل کی جو دین کی نہ ہو تو وہ عمل مردود ہے۔

آنحضرتﷺ کی ولادت شریفہ سیرت طیبہ اور وفات کریمہ کا تذکرہ و بیان کتاب و سنّت میں موجود اور معمولِ صحابہؓ سے منقول ہے یہ قطعاً بدعت نہیں بلکہ اعلیٰ درجے کے مندوبات اور حلاوتِ ایمان کے موجبات میں سے ہے. ہاں اس ذکر خیر کے لیے کسی ایک دن کو خاص کر لینا اور اس تعینِ یوم میں فضیلت کا اعتقاد رکھنا یہ امر یقینًا آئمہ دین اور سلف صالحین سے منقول نہیں پھر اس تعین یوم کی دو صورتیں ہیں. ایک تعین شرعی، دوم تعین انتظامی. 

تعین شرعی یہ ہے کہ کسی عمل کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ اسے خاص فلاں دن میں کرنا حکمِ شریعت ہے جیسے جمعہ کی نماز، رمضان کے روزے اور عید وغیرہ اور تعین انتظامی یہ ہے کہ اس کام کے خاص اس دن سے متعلق ہونے کا کوئی اعتقاد نہ ہو بلکہ محض بر سبیلِ انتظام کسی دن کا تعین کر لیا جائے جیسے شادی کے دنوں کا تعین کر لیا جائے، کاروبار کے اوقات کا تعین اوقات سفر کا تعین وغیرہ وغیرہ. اس تعین کی ضرورت اس لیے پیش آتی ہے کہ جب بھی کوئی کام کرنا ہو کسی نہ کسی دن کا تعین تو کرنا پڑتا ہے ظاہر ہے کہ یہ تعینات محض ایک انتظامی درجے کے ہیں. شرعی مسئلے کے درجے میں نہیں اور اس کی کھلی شہادت یہ ہے کہ ان ایام کے تعین میں تبدیلی بھی ہوتی رہتی ہے ایک خاندان میں ایک شادی کے دن اور معین ہوتے ہیں اور اسی خاندان میں پھر جب کوئی دوسری شادی منعقد ہو تو اس کے لیے اور دنوں کا تعین ہوتا ہے. اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ تعین کوئی امر شرعی نہ تھا ورنہ بار بار پہلے دنوں کا ہی التزام کیا جاتا. پس یہ ایک امر انتظامی ہے جس کے تعینِ ایام و اوقات سے چارہ نہیں اب یہ دیکھنا ہے کہ آنحضرتﷺ کے ذکرِ ولادت، تذکرۂ سیرت اور بیانِ وفات کے واقعات کی 12 ربیع الاول سے تخصیص ایک عمل شرعی ہے یا محض ایک امر انتظامی ہے جیسا کہ حکومت کی طرف سے بھی اس دن چھٹی کی جاتی ہے۔

حالات کا مشاہدہ بتلاتا ہے کہ یہ تخصیص و تعین شرعی ہرگز نہیں محض ایک انتظامی ہے کیونکہ یہ جسے صرف 12 ربیع الاول یا یکم سے 12 تک کے دنوں سے ہی خاص نہیں بلکہ بسا اوقات کئی مقامات پر 12 ربیع الاول کے بعد بھی ہوتے رہتے ہیں. بلکہ ربیع الاول کے بعد بھی کچھ عرصے تک یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے. کئی جگہوں میں یہ جلسے ربیع الاول سے بھی پہلے شروع ہو جاتے ہیں. یہ تمام واقعات اس امر کی شہادت ہیں کہ آنحضرتﷺ کہ تذکارِ سیرت اور بیانِ ولادت کو کسی ایک دن یا چند معین دنوں کے ساتھ کبھی بھی خاص نہیں سمجھا جاتا اور ان دنوں کے اہتمام محض ایک تعین انتظامی ہے نہ کہ تعین شرعی. ایک عرصے تک مفتی کفایت الله صاحبؒ کی بھی یہی رائے رہی ہے۔

باقی رہا جلوس کا معاملہ تو گو احقر اس کے التزم، طریق کار اور صورت عمل سے متفق نہیں مگر منانے والوں کے نزدیک بھی یہ ایک محض دنیوی اظہار مسرت ہے کوئی دینی شعار نہیں. ابھی پچھلے دنوں بعض لوگوں نے جو ان جلوسوں کا اہتمام کرتے ہیں اعلان کیا تھا کہ وہ اہلِ سنّت کے انتہائی مظلومیت کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے یہ جلوس نہیں نکالیں گے چنانچہ نارووال اور کوہاٹ وغیرہ کئی مقامات پر یہ جلوس نکالے بھی نہیں گئے. یہ واقعات اس امر کی کھلی شہادت دیتے ہیں کہ یہ جلوس کسی شرعی حکم کی صورت میں برآمد نہیں ہوتے ورنہ انہیں کسی بھی صورت میں بند کرنے کی تجویز نہ ہوتی. آج تک کبھی کسی نے نماز، روزہ، زکوٰۃ، فطر یا اس قسم کے اور کسی شرعی حکم کو بھی احتجاجاً ترک کیا ہے؟ ہرگز نہیں. شرعی احکام کے احتجاجاً ترک کرنے یا ملتوی کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اندریں صورت متبادر ہوتا ہے کہ یہ جلوس ایک شرعی مسئلے کی صورت میں نہیں محض ایک دینی شوکت کا اظہار ہے اور وہ بھی دوسری قوموں کے بالمقابل. تو اسے بدعت کہنا مشکل ہوگا تا ہم اس سے ان دوسرے کئی غیر شرعی امور کو جو ان جلوسوں میں عمل میں لائے جاتے ہیں مبرّا عن البدعة اور بری عن الحرمة ہونے کا حکم حاصل نہیں ہو سکتا. جو کام اپنی ذات میں مکروہ یا حرام ہے انہیں اپنانا کسی صورت بھی جائز نہیں. ان امور کی اصلاح از بس ضروری ہے یہ ایک واقعاتی مشاہدہ ہے کوئی فتویٰ نہیں. فتویٰ کے لیے کسی اور مرکزی دارالافتاء کی طرف رجوع کیجیے۔

2- سیدنا علی المرتضیؓ کے سیدنا ابوبکرؓ سے نہایت اچھے تعلقات تھے. انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ کے دست مبارک میں بیعت بھی کی تھی. (دیکھیے احتجاجِ طبرسی متبوعہ ایران) اور ان کے پیچھے بھی نمازیں پڑھتے تھے (احتجاج طبرسی). سیدہ فاطمۃ الزہرہؓ سے سیدنا علیؓ کا نکاح بھی سیدنا صدیق اکبرؓ کی تحریک پر ہی ہوا تھا اور وہ اس نکاح کے گواہوں میں سے بھی تھے اور جب خاتون جنت سیدہ زہراؓ کی وفات ہوئی تو انہیں غسل بھی سیدنا صدیق اکبرؓ کی بیوی ہی نے دیا تھا اور یہ سیدنا صدیق اکبرؓ کی خلافت مبارک کا دور تھا. 

3- سیدنا امیر معاویہؓ کی خلافت تک سیدنا حسینؓ اور امیر معاویہؓ کے تعلقات اچھے تھے. سیدنا امیر معاویہؓ کی پوری کوشش تھی کہ وہ روابط جو انہوں نے سیدنا حسینؓ کے ساتھ نہایت بہترین انداز میں قائم کر رکھے ہیں ٹوٹنے نہ پائیں. شیخ ابن بابویہ قمی سیدنا زین العابدینؓ سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا امیر معاویہؓ نے آخری وقت میں یزید کی جو نصیحتیں کیں ان میں سے ایک یہ تھی.

حق حرمت اورا بشناس و منزلت و قرابت اورا با پیغمبر بیاء آورد باکردہ ہائے او مواخذہ مکن و روابطی کہ من با او دریں مدّت محکم کردہ ام قطع مکن. 

(جلاء العیون صحفہ 388 ایران) 

ترجمہ:سیدنا حسینؓ کے حق احترام کو پہچاننا اور انہیں جو قرب اور درجہ حضور اکرمﷺ کہ ہاں حاصل ہے اسے یاد رکھنا ان کے کسی عمل پر ان سے مواخذہ نہ کرنا اور وہ تعلقات جو میں نے اب تک انتہائی مضبوط کر رکھے ہیں انہیں ہرگز قطع نہ کرنا۔

اس روایت سے معلوم ہوا کہ سیدنا حسینؓ اور سیدنا امیر معاویہؓ کی زندگی تک وہ وظیفہ وصول کرتے رہے، جو سیدنا حسنؓ کے ساتھ بوقت صلح مقرر ہوا تھا اور سیدنا امیر معاویہؓ اخر دم تک کوشاں رہے کہ اہلِ بیت کے ان بزرگوں کے ساتھ تعلقات نہایت اچھے اور محبت کے انداز میں قائم رکھے جائیں۔