جب ہم آپس میں ملتے ہیں تو ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہیں جو جمع کا صیغہ ہے اور جب رسول اللہﷺ پر سلام پیش کیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے السلام علیک یا رسول اللہﷺ جو واحد کا صغیہ ہے اس کی کیا وجہ ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عمادجواب:
سلام صرف حقِ اسلام ہے اور غیر مسلم اصالةً سلام کا مستحق نہیں. یہ سلامتی کا تحفہ صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو نعمت اسلام سے سرفراز ہوں. آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ اہل کتاب کو سلام کہنے میں پہل نہ کرو اور اگر وہ سلام کہیں تو صرف وعلیکم پر اکتفا کرو. اس سے واضح ہے کہ تحفۂ سلام صرف حقِ اسلام ہے. اسی طرح ہم اگر کسی شخص کو پہلے سے نہ جانتے ہوں ناواقفی کا ماحول ہو اور وہ ہمیں سلام کہہ دے تو ہم مُکلَّف ہیں کہ اسے مسلمان سمجھیں. قرآن عزیز میں ہے:
ولا تقولوا لمن القیٰ الیکم السلام لست مؤمناً.
(پارہ 5، سورة النساء، ركوع 13)
ترجمہ:جو شخص تم پر سلام ڈالے اسے ہرگز نہ کہو کہ تو مومن نہیں۔
ایمان حقیقت بے شک یہ سلام نہیں یہ صرف اس کی ایک علامت ہے لیکن ہم اس علامت سے ہی اسے مسلمان کہنے پر مجبور ہیں. جب تک ایمان کی حقیقت جو خدا اور اس کے رسول کی جملہ تعلیمات کی تصدیق ہے اس کے کسی پہلو کی نفی نہ ہو. یہ علامت اسلام ہی کی دلیل سمجھی جائے گی. تاہم اس میں نیت کو بہت دخل ہے بواطن امور صرف اللّٰه تعالیٰ کے علم میں ہیں ہمارا اسلام اور اسلام صرف ایک ظاہر کا نام ہے اور ہم گمان رکھتے ہیں کہ باطن بھی ایسا ہوگا لیکن کسی دوسرے کے متعلق یہ محض ایک مرتبۂ ظن ہے مرتبۂ یقین نہیں. اس لیے یہ سلام کی ایک عمومی شکل میں پیش ہوتا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ السلام علیکم. اگر وہ خاص مخاطب حقیقۃً اس سلام کا مستحق نہیں تو پھر یہ سلام کسی مستحق پر جا پڑے گا جمع کے صیغے میں جو جو افراد داخل تھے خواہ وہ افرادِ مجلس ہوں یا افرادِ جنسِ ملائکہ، حاضرین ہوں یا کراماً کاتبین. کوئی نہ کوئی تو اس سلام کا اہل ہوگا جس کے لیے صیغۂ جمع بہت مناسب ہے. ہاں دربارِ رسالت میں ایسا کوئی احتمال نہیں اور آنحضرت علٰی وجہ القطع و الیقین اس مقامِ سلامتی پر فائض ہے اور اس سلام کے مستحق ہیں اس لیے وہاں پوری صراحت کے ساتھ بدون کسی احتمال سامنے کے صیغۂ واحد سے عرض کیا جاتا ہے السلام علیک یا رسول الله اور اسی طرح شیخین کریمین سیدنا صدیق اکبرؓ اور فاروق اعظمؓ جن کے بواطن امور لسانِ نبوت سے تصدیق شدہ ہیں اور جن کے انجام کی خبر آنحضرتﷺ کی بشارات جنت سے باکمال ہویدا ہے. ان پر بھی صیغہ واحد سے سلام عرض کیا جاتا ہے کیونکہ یہاں کوئی مرتبہ ظن نہیں وہ یقینی طور پر فلاحِ آخرت سے ممتاز ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب