Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

اہلِ سنّت و الجماعة کے نزدیک چاروں امام برحق ہیں. امام اعظمؒ ، امام شافعی ؒ، امام مالکؒ اور امام احمدؒ. امام اعظمؒ كا عقیدہ ہے کہ خرگوش کا کھانا جائز ہے. امام شافعيؒ کا قول ہے کہ حرام ہے. جب ایک بزرگ حلال کہتے ہیں اور دوسرے حرام تو پھر دونوں حق پر کیسے ہو سکتے ہیں خرگوش کے حلال ہونے کا مسئلہ واضح کیا جائے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   محمد شریف سیکرٹری مسلم ویلفیئر ایسوسی ایشن موضع سیترانوالی ضلع سیالکوٹ

جواب:

اہلِ سنّت کے نزدیک بے شک چاروں امام برحق ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ حق میں تعدد ہے. حق بلا شبہ واحد ہے اور وہ ایک ہی حقیقت ہے. یہ چاروں امام اصولی عقائد میں پوری طرح متفق ہیں. اور فروع متواترہ میں بھی ان میں کوئی اختلاف نہیں ہاں وہ فروعی مسائل جو اخبارِ احاد سے منقول ہیں، ان میں کسی امام کے نزدیک حدیث ثابت ہونے یا نہ ہونے کی وجہ سے ان میں کہیں کہیں اختلاف ضرور پایا جاتا ہے. اسی طرح کئی ان مسائل میں بھی جو کتاب و سنّت میں منصوص نہیں اور ان کا حکم صرف اجتہاد سے ہی معلوم ہو سکتا ہے ان بزرگوں میں اختلاف موجود ہے. ان اجتہادی مسائل میں بھی حق بے شک واحد ہے اور مجتہد مصیب صرف ایک ہی ہوتا ہے لیکن رحمة للعالمین کی شریعت کا دامنِ رحمت اتنا وسیع پھیلا ہوا ہے کہ لفجوائے حدیثِ نبوی مجتہد مخطی بھی محلِ ملامت نہیں بلکہ ایک اجر کا مستحق ہے. اور اس حدیث پر امام بخاریؒ اور مسلمؒ دونوں متفق ہیں ہاں یہ ضرور ہے کہ اس مجتہد میں اجتہاد کی تمام شرطیں اصولاً موجود ہوں اور اس کا مجتہد ہونا ان علمی حلقوں میں مسلَّم ہو جن پر مسائل کی نقد وجرح میں عمومی اعتماد پایا جاتا ہے. اس علمی مقام اور شانِ اجتہاد کے بغیر کوئی نااہل اجتہاد کرتا ہے تو اس کی خطا ہرگز قابلِ درگزر نہیں بلکہ وہ مصیب بھی ہو تو پھر بھی ملامت کا مستحق ہے. 

اس ارشاد نبوت کی رو سے کہ مجتہد خطا بھی کرے تو اپنی سعی اجتھاد کی وجہ سے ایک اجر کا مستحق ہے. وہ مجتھدین کرام جو اصولی عقائد اور فروع متواترہ میں پوری طرح متفق اور متحد ہیں. اور صرف بعض اجتھادی مسائل میں اختلاف ہونے کی وجہ سے آپس میں مختلف ہیں. سب کے سب برحق ہیں اور ان میں سے کسی ایک کی اتباع بھی کر لی جائے تو ہر وہ شخص جس کی اصل دلیل پر نظر نہ ہو عند اللہ مثاب و ماجور ہے. چاروں اماموں کے برحق ہونے کا مطلب یہی ہے اور حق کے واحد ہونے سے انکار نہیں جو مجتہد اس پر فائز ہو اور مصیب ہو وہ دُگنے اجر کا مستحق ہے ارشادِ نبوت کا فیصلہ یہی ہے۔

یہ آئمہ کرام کوئی مامور من اللہ افراد نہیں کہ انہیں خدا کی طرف سے مرتبۂ امامت ملا ہو بلکہ یہ آئمہ اعلام تعلیم و تعلم اور نظر و اکتساب سے اس بلند علمی مقام پر فائض ہوئے کہ مسائل غیر منصوصہ کا حکم دریافت کرنے میں امت نے ان کے علم و فہم پر اعتماد کیا اور انہوں نے مسائل غیر منصوصہ کو مسائل منصوصہ کی طرف لوٹا کر اجتہاد و استنباط سے ان کا حکم شرعی دریافت کیا. پس یہ بزرگانِ کرام مسائل کے ظاہر کرنے والے ہیں قائم کرنے والے نہیں ہیں. شریعت کا اثبات صرف نبوت کی شان ہے، اجتہاد صرف مظہر ہے مثبت ہرگز نہیں. وہ آخری امام جن کا منصب اثبات شریعت ہے صرف اور صرف جناب محمد رسول اللہﷺ تھے اور اس اعتبار سے نبوت اور امامت ایک ہی منصب کے دو اعتبار ہیں۔

2. یہ غلط ہے کہ امام شافعيؒ خرگوش کو حرام کہتے ہیں. اس پر حوالہ پیش کیا جائے تاکہ اس کی وضاحت ہو سکے؟ خرگوش کا حلال ہونا خود عملِ نبوت سے ثابت ہے صحیح بخاری میں سیدنا انسؓ سے مروی ہے:

عن انسؓ قال انفجنا ارنباً و نحن بمرّ الظّھران فسعی القوم فلغبوا فاخذتها فجئت بها الیٰ ابی طلحة فذبحها فبعث بوركيها او قال بخفذيها الى النبي صلى الله عليه واله وسلم فقبلها.

(بخاری جلد 2 صفحہ 830) 

ترجمہ:سیدنا انسؓ کہتے ہیں کہ ہم وادئ ظہران کے پاس سے گزر رہے تھے کہ ہم نے ایک خرگوش کا پیچھا کیا سب لوگ دوڑے اور تھک گئے. پس میں نے اسے پکڑ لیا اور اسے سیدنا ابو طلحہؓ کے پاس لے آیا انہوں نے اسے ذبح کیا اور اس کی دو رانیں آنحضرتﷺ کے پاس بجھوا دیں. آپﷺ نے انہیں قبول فرمایا. (یعنی تناول فرمایا یا اس کے حلال ہونے کی توثیق فرمائی۔) 

خرگوش نہ مردار خور ہے اور نہ ہی درندوں میں سے. پس اس کے حرام ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا اس کی مادہ کو خون آنے کی بنا پر جو اس کی کراہت بیان کی جاتی ہے ابن خزیمہؓ کہ وہ روایت سنداً بالکل ضعیف ہے اور سنن نسائی کی روایت میں حضور اکرمﷺ کا اسے نہ کھانا محض طبعاً تھا جس طرح کسی چیز کو دل نہیں چاہتا شرعاً نہ تھا ورنہ آپ اسی وقت دوسروں کو اس کے کھانے کا حکم نہ فرماتے۔

انه قال کلوا

(نسائی جلد 2 صفحہ 175)

(سنن نسائی، جلد 2، صفحہ 197، کتب خانہ قدیمی، باب الارنب)

حضورﷺ نے فرمایا:

”اس خرگوش کا گوشت کھاؤ“۔

ابن صفوان کہتے ہیں کہ میں نے دو خرگوش شکار کیے اور انہیں تیز دھار پتھر سے ذبح کیا اور پھر آنحضرتﷺ سے استفسار کیا۔

فامرنی باکلھا

(سنن نسائی، جلد 2، صفحہ 175)

(صفحہ 197)

حضورﷺ نے مجھے ان دونوں کے کھانے کی اجازت فرمائی۔

ولا بأس بکل ارنب لان النبي صلى الله عليه واله وسلم اكل منه حين اهدي عليه مشویاً وامر اصحابه رضي الله عنهم بالاكل منه ولانه ليس من السباع ولا من اكلة الجيف فاشبه الظبي.

(ھدایہ جلد 3 صفحہ 374)

(ھدایہ، مولانا عبد الحئی لکھنوی جلد صفحہ 425)

ترجمہ:اور مادہ کو خون آنا کسی طرح کراہت کی دلیل نہیں. حیض اور نفاس کی جنس ایک ہے انواع مختلف ہیں. اگر حیض کی بنا پر حرمت لازم آتی ہے تو نفاس (بچہ پیدا ہونے کے وقت آنے والا خون) بھی حرمت کی دلیل ہو جائے گا جو بھیڑ، بکری، گائیں اور اونٹنی سب میں برابر کا مشترک ہے اس صورت میں تو کوئی بھی جانور حلال نہیں رہے گا معاذ اللہ ثم معاذ اللہ۔

بہرحال امام شافعیؒ کے ذمہ یہ لگانا کہ وہ خرگوش کی حرمت کے قائل تھے یہ ایک بہت بڑا جھوٹ اور بہتان ہے۔

واللہ اعلم بحقیقة الحال