Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

حضرت امام اعظم صاحبؒ کے متعلق کیا ہم آپ کا مذہب رکھتے ہیں اگر ہم ان کا مذہب رکھتے ہیں تو یہ کون ہیں؟ کیا یہ 12 اماموں میں سے ہیں؟ اگر یہ 12 اماموں میں سے نہیں ہے تو یہ کون بزرگ ہیں اور کس زمانے میں ان کو امامت ملی اور کس نے دی؟ 2: میں نے قرآن شریف میں خود پڑھا ہے کہ قیامت کے دن ہر ایک اپنے اپنے امام کے پیچھے اٹھیں گے آپ تحریر فرمائیں کہ وہ کون سے امام ہوں گے جن کے پیچھے قیامت کے دن اٹھیں گے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   مرزا خاں سکنہ منہالہ ڈاک خانہ چوہا سیدن شاہ تحصیل پنڈ دادن خان ضلع جہلم

جواب:

 جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہم امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مذہب پر ہیں تو ہماری مراد اس سے یہی ہوتی ہے کہ وہ مسائل جو کتاب و سنّت میں منصوص نہیں یا منصوص ہیں مگر متعارض ہیں. تو ان کے مسائل غیر منصوصہ یا مسائل منصوصہ متعارضہ غیر معلومة التقدیم والتاخیر میں ہم حضرت امام اعظمؒ کے اجتہاد پر پورا اعتماد رکھتے ہیں کہ وہ علتِ حکم پر نظر کر کے ان مسائل کا حل کتاب و سنّت کے دوسرے منصوص مسائل کی روشنی میں واضح فرما دیتے ہیں. ہمارے یہ ائمہ کرام مجتہدین ہیں اور مجتہدین کا کام اثباتِ شریعت نہیں. استنباط و استخراج سے اظہارِ شریعت ہے۔

امام اعظمؒ تابعین میں سے ہیں جنہوں نے کئی صحابہ کرام رضوان اللّٰہُ عَلَیْہِمْ اجمعین کی زیارت کی. آپ سن 80ہجری میں پیدا ہوئے اور سن 150 ہجری میں وفات پائی. اپنے وقت میں علمِ کلام حدیث اور فقہ کا مرکز تھے. آپ کی امامت کوئی آسمانی منصب نہیں جس کے ملنے اور بعثت کا کوئی وقت مقرر ہو بلکہ یہ ایک مرتبۂ علمی ہے جو علم و فن کی تحصیل اور فہم و ذکاوت کی عملی تربیت کے ساتھ قائم ہوتا ہے اور یہ کائنات کی عملی ترتیب ہے کہ ہر فن میں اس کے کاملین پر اعتماد کیا جاتا ہے. اور یہی ان آئمہ اجتہاد کی پیروی کی حقیقت ہے. ان کے حالات کے لیے آپ امام اعظمؒ کا شجرہ علمی کا مطالعہ فرمائیں یہ احقر کی ایک پرانی تصنیف ہے۔

ہم اہلِ سنّت کے نزدیک مشہور بارہ امام بھی کسی آسمانی امامت کے حامل نہ تھے آسمانی مرتبۂ امامت حضور ختمی مرتبتﷺ کے بعد کسی اور کے لیے ثابت نہیں. یہ مرتبۂ امامتِ آسمانی صرف پیغمبروں کی شان ہے. نبوت کے بغیر کسی آسمانی مرتبۂ امامت کا حاصل ہونا کتاب و سنّت سے اس کا کوئی ثبوت نہیں. ان بارہ اماموں کی امامت بھی محض ایک عملی اور اکتسابی مرتبہ ہے اور ان کی امامت کی حقیقت وہی ہے جو امام محمد بن حنفیہؒ, امام حسن بصریؒ اور امام محمد بن سیرینؒ اور ان جیسے کئی دوسرے آئمہ دین کی امامت تھی ہاں ان آئمہ دوازدہ میں سے جو شرفِ صحابیت پر فائز ہوئے وہ ان آئمہ اجتہاد سے کہیں بالا ہیں. وہ ان صحابہ کرام رضوان اللّٰہُ عَلَیْہِمْ اجمعین میں معدود ہوتے ہیں جن کے مرتبے کو کوئی غیر صحابی نہیں پہنچ سکتا. ان کی بہت بڑی شان ہے جس کا انکار ممکن نہیں۔

2: قیامت کے دن ہر کسی کو جو اس کے امام کے نام سے بلایا جائے گا تو یہاں امام سے مراد ہر وہ پیشواء ہے جس کی کسی نے پیروی کی. فرعون کے پیرو اس کے نام سے بلائے جائیں گے اور نمرود کے پیرو نمرود کے نام سے. یہ آئمة الکفر اپنے اپنے پیروں کے امام ہوں گے امام اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی. یہ کوئی آسمانی منصب نہیں کہ جس کے ایک ہی معنی ہوں. جیسے نبی اور رسول وغیرہ کے الفاظ صرف اچھا معنی ہی رکھتے ہیں مرزا غلام احمد کے پیرو اس کے نام سے پکارے جائیں گے اور اہلِ اسلام ان شاء اللہُ العزیز الرحمن آنحضرتﷺ کے نام سے پکارے جائیں گے کیونکہ ہمارے عوام اور پیشوا وہی ہیں. ہم نے فروعی مسائل میں جن آئمہ کی پیروی کی ہے وہ ایک مصلحتی امر ہے کہ اجتہاد کی اہلیت نہ ہونے کے باعث ہم نے ان مجتہدین کرام کی پیروی کر لی لیکن یہ کوئی بنیادی امر نہیں جس سے کسی ملّت کے نشاندہی ہو. ہماری ملّی نشاندہی ان شاء اللّٰہ حضورﷺ کے نام سے ہی ہوگی اور اللّٰہ تعالی توفیق دے کہ ہم انہیں کے نام سے اٹھائے جائیں۔

واللہ اعلم بالصواب