سیدنا عمرؓ نے ایک زانیہ عورت کے رجم کرنے کا حکم دیا.حالانکہ وہ حاملہ تھی. سیدنا علیؓ نے انہیں روکا اور فرمایا کہ آپ کو اس بچے پر کوئی حق نہیں. اس پر سیدنا عمرؓ نادم ہوئے اور اپنے حکم کو روک لیا. مخالفین کہتے ہیں کہ انہیں معاذ اللّٰه مسائل شرعیہ کی بھی پوری واقفیت نہ تھی اس کا جواب بذریعہ دعوت دیا جائے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سعید ظفر چوک سخی اختیار سیالکوٹجواب:
سیدنا عمر فاروقؓ کو اس کے حاملہ ہونے کا علم نہ تھا یہ نہیں کہ سیدنا عمرؓ کے نزدیک حاملہ عورت پر حد جاری کرنا جائز تھا. مسئلے کا سیدنا عمرؓ کو پورا علم تھا لیکن یہ واقعہ معلوم نہ تھا کہ عورت حاملہ ہے اور حمل کے ابتدائی مراحل محض دیکھنے سے پہچانے بھی نہیں جا سکتے. سیدنا علیؓ اس عورت کو پہلے سے جانتے تھے اور انہیں علم تھا کہ وہ حاملہ ہے. چنانچہ انہوں نے سیدنا امیر المومنینؓ کی خدمت میں عرض کر دیا اور حقیقتِ حال کی اطلاع دے دی. سیدنا عمر فاروقؓ اس اطلاع یابی پر بہت خوش ہوئے اور اس پر حد جاری نہ فرمائی. اگر سیدنا عمرؓ کو مسئلہ معلوم نہ ہوتا تو وہ سیدنا علیؓ کی اس اطلاع دہی پر کہ وہ عورت حاملہ ہے حد جاری کرنے کو کیوں روک دیتے. اس کی وجہ پوچھتے.
باقی رہا یہ امر کہ فیصلہ کرتے وقت ایسے امور مخفیہ کا معلوم کرنا قاضی کے ذمہ ہے. سو یہ باتفاقِ فریقین ضروری نہیں. فقہ کی کسی کتاب میں استفسار نفاذِ حکم کے لیے شرط نہیں بتلایا گیا. آنحضرتﷺ نے سیدنا علیؓ کو ایک دفعہ حکم دیا کہ فلاں زانی عورت پر حد قائم کریں وہ تازہ تازہ حالتِ نفاس میں تھی. سیدنا علیؓ نے اس پر حد قائم کی اور حضورﷺ کے پاس آکر صورتحال عرض کر دی. حضور ﷺ نے فرمایا: احسنتَ
تو نے اچھا کیا اور بہت خوش ہوئے. یہ حدیث فریقین کی کتابوں میں موجود ہے. پس اگر آنحضرتﷺ کا یہ حکم موجبِ اعتراض نہیں اور سیدنا علیؓ کہا یہ انکشاف موجبِ افضلیت نہیں تو سیدنا فاروق اعظمؓ کا وہ حکم کس طرح موجب اعتراض ہو سکتا ہے اور سیدنا علیؓ کا مذکورة الصدر انکشاف کس اعتبار سے موجبِ افضلیت قرار دیا جا سکتا ہے؟
فتفکروا بالولی الابصار
آنحضرتﷺ کے زمانے میں ایک عورت نماز پڑھنے کے لیے نکلی تو ایک شخص نے اسے راستے میں گرا لیا اور اس کے ساتھ زنا کیا. اس عورت نے شور کیا اور وہ شخص بھاگ گیا. ایک دوسرا شخص اس کے پاس سے گزرا تو اس عورت نے اسے زانی سمجھ لیا اور مجرم قرار دیا. پاس سے گزرنے والی مہاجرین کی ایک جماعت نے اسے پکڑا اور حضورﷺ کے پاس لے آئے. آنحضرتﷺ نے ظاہر حال کے مطابق اس پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا اس پر وہ اصل مجرم جس نے عورت کے ساتھ زنا کیا تھا بول اٹھا اور کہا کہ کہ مجرم میں ہوں. آپ نے پہلے شخص سے حکم روک لیا اور اصل مجرم پر حد جاری فرما دی. اس کی حق گوئی پر حضور ﷺ نے فرمایا:
لقد تاب توبة لو تابها اهل المدينة تقبل منهم.
(سنن ابی داؤد جلد 2 صفحہ 601)
ترجمہ:اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر اسے سارے اہل مدینہ کی طرف سے شمار کیا جاتا تو یہ سب کے لیے کافی تھی۔
اس طرح کے بیسیوں واقعات احادیث و سیر کی کتابوں میں موجود ہیں. شریعت ظاہری حالات پر مبنی ہے. بواطن اُمور کا کھوج لگانا قانون کی رسائی سے بالا ہے. ہاں اگر ان امور مخفیہ پر کسی اور طریق سے اطلاع ہو جائے تو پھر یہ بواطن بھی ظواہر کا حکم اختیار کر لیتے ہیں. اندریں صورت سیدنا عمرؓ نے سیدنا علیؓ کے انکشاف کو قبول فرمایا اور اپنے حکم کو روک لیا. باقی آپ کا یہ کہنا کہ”لولا علی لھلک عمر“. یہ ازروئے تواضع اور انکسار تھا اور ایسی شخصیاتِ کریمہ کا اندازِ کلام ایسا ہی ہوتا ہے۔
واللہ اعلم