سیدنا عمرؓ نے نمازِ تراویح ایجاد کی اور اسے نعمةِ البدعۃ ھٰذہ کہہ کر اچھی بدعت قرار دیا. حالانکہ پیغمبرِ اسلامﷺ نے کل بدعۃ ضلالۃ کہہ کر ہر بدعت کو گمراہی کہا تھا. بدعت میں اچھائی کیسے آسکتی ہے اس کا جواب دیے کر مشکور فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ارشاد احمد از سرائے عالمگیرجواب:
سیدنا فاروق اعظمؓ نے نمازِ تراویح خود ایجاد نہیں کی بلکہ اسے آنحضرتﷺ نے شروع فرمایا تھا. حضورﷺ خود فرماتے ہیں:
شھر کتب اللّٰه علیکم صیامه و سننت لكم قيامة.
(سنن ابی ماجه صحفہ 95)
ترجمہ:
یہ ایسا مہینہ ہے کہ اللّٰہ تعالی نے اس کے روزے تم پر فرض کیے اور میں نے اس کا قیام (نمازِ تروایح) تمہارے لیے سنّت بنایا۔
آنحضرتﷺ نے اس کی مواظبت ترک فرمائی کہ کہیں اس نماز کی فرضیت لازم نہ آجائے. بایں ہمہ صحابہ کرامؓ متعدد جماعتوں کی صورت میں نماز تراویح کرتے رہے اور حضورﷺ کو اس کی اطلاع بھی ہوتی رہی. سنن ابی داؤد میں ہے کہ آنحضرتﷺ نے تراویح کی جماعت ہوتے دیکھی اور فرمایا:
اصابوا و نعم ما صنعوا.
ترجمہ: انہوں نے صحیح کیا ہے اور جو کیا اچھا کیا ہے۔
ابو داؤد کی یہ روایت امام بہیقی کی کتاب معرفة السنن والآثار میں بھی سند جید کے ساتھ موجود ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرتﷺ نے نمازِ تراویح پر جب مواظبت ترک کی تو اسے عن اصلہ ترک نہ کیا تھا اگر ایسا ہوتا تو جو صحابہؓ علیحدہ علیحدہ جماعتوں کی صورت میں عمل پیرا رہے حضورﷺ ان کی تصویب نہ فرماتے. بلکہ انہیں منع کرتے۔
سیدنا عمرؓ نے جو کچھ کیا وہ یہی تھا کہ انہیں متعدد اور متفرق جماعتوں سے ہٹا کر ایک مرکزی جماعت پر جمع کر دیا کیونکہ حضور ختمی مرتبﷺ کی وفات شریفہ کے بعد اب اس مواظبت سے اس کے فرض ہونے کا کوئی امکان باقی نہ تھا. سیدنا عمرؓ کا عمل محض یہی ہے ایجادِ تراویح یا ایجادِ جماعتِ تراویح ہرگز نہیں اور صحیح بخاری میں اس پر نص موجود ہے. باقی رہا آپ کا یہ فرمانا کہ یہ اچھی بدعت ہے یہ محض بر سبیل الزام تھا گویا سیدنا عمرؓ یہ کہہ رہے ہیں کہ”اگر یہ بدعت ہے تو چلو بدعت ہی صحیح، یہ اچھی بدعت ہے“. اور یہ پورے الفاظ بھی جن سے اس جواب کا الزامی ہونا واضح ہوتا ہے امام محمد بن نصر مروزی کی کتاب قیام اللیل میں موجود ہے. کنز الایمان میں بھی اس کی تائید موجود ہے۔
فَتح الملہم میں ہے کہ آپ نے پوری بات یوں فرمائی تھی۔
لئن کانت ھذہ لبدعة نعمت البدعة ھی ( فتح الملہم جلد 2 صفحہ 319)
پس مجمل روایت کو دوسری مفصل روایات کی روشنی میں حل کرنا چاہیے۔
جو بات پہلے نہ ہوئی ہو وہ تو بدعت ہے لیکن جو عمل پہلے ہوتا رہا اور پھر بلااعلانِ نسخ اسے چھوڑ دیا گیا اسے کسی طرح بدعت نہیں کہا جا سکتا. اسے اس کی حیثیت میں دوبارہ لے آنا لغةً تو نئی بات ہو سکتا ہے شرعا نہیں۔ نعمت البدعۃ ھٰذہ اسی کو کہتے ہیں۔
پھر بدعۃ شرعی کی حد تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بعد سے شروع ہوئی ہے وہ خود بدعت کا موضوع کیسے بن سکتے ہیں. ان کا اپنا قول اور عمل خود امت کے لیے حجت ہے اسے اگر چھوڑا جا سکتا ہے تو کسی دوسرے صحابی کے قول و عمل سے تمسک کرتے ہوئے اپنے طور پر اسے چھوڑنے کا کسی کو حق نہیں. سیدنا حذیفہؓ (36 ھ) فرماتے ہیں:
كل عبادة لم يتعبدها أصحاب رسول الله صلى الله عليه واله وسلم فلا تعبدوها.
(الاعتصام للشاطبی جلد 1 صحفہ 54)
ترجمہ:
ہر وہ عملِ عبادت جسے حضورﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عبادت نہیں جانا تم اسے عبادت کے طور پر عمل میں نہ لانا۔
جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تنقید کرنا خود بدعت ہے تو وہ خود بدعت کا موضوع کیسے ہوں گے. علامہ عبدالشکور السالمیؒ تمہید میں لکھتے ہیں:
الكلام في البدعة على خمسة اوجه: الكلام في الله والكلام في قدرة الله والكلام في عبيدالله والكلام فى اصحاب رسول الله.
(التمہید لابی شکور السالمی صحفہ 189)
ترجمہ:
بدعت پانچ طرح کی ہے: اللّٰہ کے بارے میں وہ بات کہنا جو پہلوں نے نہیں کہی، قرآن کے بارے میں نیا قول کرنا، اللّٰہ کی قدرت میں لب کشائی کرنا، اللّٰہ کے پیغمبروں کے بارے میں نئی بات کہنا اور صحابہؓ پر کسی قسم کی تنقید کرنا۔
حافظ ابن کثیرؒ (774ھجری) لکھتے ہیں:
اما اهل السنة والجماعة فيقولون في كل فعل و قول لم يثبت من الصحابة رضي الله عنهم هو بدعة.
(تفیسر ابن کثیر جلد 4 صحفہ 152)
ترجمہ:اہلسنّت و الجماعة ہر اس قول اور عمل کو جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت نہ ہو بدعت کہتے ہیں۔
پس ہرچہ خلفاء راشدین بداں حکم کردہ باشند
اطلاق بدعت برآں نتواں کرد
(اشعة اللمعات جلد 1 صحفہ 120)
واللہ اعلم بالصواب