Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا آدم علیہ السلام سے گناہ سرزد ہونے میں کیا اسلام اور عیسائیت ہمنوا ہیں؟ اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا یہ گناہ اولادِ آدم میں وراثةً منتقل ہوتا چلا آرہا ہے جس کے لیے کفارہ یسوع ضروری ہے؟ کیا آپ سے گناہ کا صادر ہونا قرآن پاک کی نصِ صریح ہے. اس کی وضاحت فرمائیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عبدالرحیم گارڈن ٹاؤن لاہور

جواب

 ہم اہلِ سنّت کے نزدیک عصمتِ نبوت لازمۂ نبوت ہے اور انبیاء کرام کے معصوم ہونے کا اعتقاد ضروریاتِ دین میں سے ہے. عقیدہ عصمتِ نبوت یہ ہے کہ انبیاء کرام حکمِ باری تعالٰی کی ارادی مخالفت سے بالکل معصوم ہیں اور اگر کبھی غیر ارادی خطا ہو جائے تو اس پر انہیں باقی نہیں رہنے دیا جاتا. سیدنا آدمؑ سے بیشک خطا سرزد ہوئی لیکن وہ اس پر اڑے یا ڈٹے نہیں رہے قرآن عزیز میں ہے:

ولم نجد له عزماً. 

”اور ہم نے آدمؑ کی اس خطا پر پختگی نہ پائی“.

جب سیدنا آدمؑ ہی اس خطا پر نہ اڑے اور اللّٰہ تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ ان کی توبہ قبول فرمائی بلکہ انہیں نبوت سے بھی سرفراز فرمایا اور اپنا مجتبیٰ گردانا تو پھر اس گناہ کے ان کی اولاد میں وراثتًہ منتقل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا. اسلام فطرت کے مطابق ہے. وہ اسے تو جائز قرار دیتا ہے کہ اللّٰہ رب العزّت کسی خطا سے درگزر فرمائیں لیکن اس عمل کی اسلام کے قانونِ انصاف میں کوئی گنجائش نہیں کہ گنہگاروں کے گناہ ایک بے گناہ کے سر لگا دئیے جائیں اور پھر اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے۔

تعالیٰ اللّٰه عن ذلك علوً کبیرا. ان اللّٰه لایظلم مثقال ذرّۃ.