Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ایک شیعہ صاحب نے کہا ہے کہ سیّد زادی کا نکاح غیر سیّد سے اگر ناجائز ہے تو رسول کریمﷺ کی بیٹیاں جو سیّد زادیاں تھیں ان کا نکاح غیر سیّدوں سے کس طرح ہو گیا؟ وہ کہتا ہے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ سیّد زادی کا نکاح غیر سیّد سے نہیں ہو سکتا. اگر رسول کریمﷺ کی وہ بیٹیاں آپ کی حقیقی بیٹیاں ہوتیں تو آپ ان کا نکاح غیر سیّدوں سے کسی طرح نہ کرتے. اگر ہو سکے تو کسی شیعہ مصنف کا بھی کوئی حوالہ دیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   احقر عبدالعزیز دکاندار محلہ مکران ٹیکسلا

جواب:

 سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سیّد سے کیا مراد ہے. ہمارے بلاد میں سیّد سے عام طور پر اولادِ رسول مراد لی جاتی ہے اور جن کے نسب میں آنحضرتﷺ کا دخل ہے انہیں ہی سادات سمجھا جاتا ہے. اس صورت میں سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ تو بے شک سیّد بلکہ سادات ہیں لیکن سیدنا علی مرتضیٰؓ صرف قریشی اور ہاشمی ہیں ان کے نسب میں آنحضرتﷺ کا کوئی دخل نہیں بلکہ سیدنا علیؓ اپنے دادا عبدالمطلب میں آنحضرتﷺ کے ساتھ جا ملتے ہیں. سیّد کی اس تعبیر سے ان پر بھی سیّد کا اطلاق نہیں ہو سکتا کیونکہ ان میں آنحضرتﷺ کا خون نہیں. ہاں یہ اعزاز و اکرام سیدہ فاطمۃ الزہراؓ کو حاصل ہے اور ان کے بعد یہ مرتبہ ان کی اولاد میں منتقل ہوا ہے. سیدنا علی المرتضٰیؓ وہ اولاد جو دوسری بیویوں سے تھی انہیں سیّد نہیں کہا جاتا. سیدنا علی المرتضیؓ اگر سیّد ہوتے تو ان کی سب اولاد بھی سیّد کہلاتی حالانکہ یہ اعزاز صرف اولادِ فاطمۃ الزہراؓ کو حاصل ہے۔

بایں ہمہ یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ سیدہؓ کا نکاح سیدنا علی المرتضیؓ سے ہوا. یہ اس امر کی واضح شہادت ہے کہ سیّد زادی کا نکاح غیر سیّد سے جائز ہے. بشرطیکہ وہ غیر سیّد خاندان قریش میں سے ہو یا کسی ایسے خاندان میں سے جو شرافت یا وجاہت کے لحاظ سے سیّد کا کفو بن سکے. قریش ایک دوسرے کے کفو ہیں خواہ کوئی ہاشمی ہو خواہ اموی. ہاں عجمی ممالک میں کفاءت کا مدار حریت اور اسلام پر ہے. درمختار میں ہے:

الكفاءة نسباً فقريش بعضهم اكفاء بعض و بقية العرب بعضهم اكفاء بعض. هذا في العرب. واما في العجم فيعتبر حریّةً واسلامًا.

 (درمختار جلد 3 صفحہ 86 مع الشامیہ بالاختصار)

ترجمہ: کفو ہونے کا اعتبار نسب پر ہے. قریش سب ایک دوسرے کے کفو ہیں. اسی طرح باقی عرب آپس میں ایک دوسرے کے برابر ہیں. یہ معاملہ عرب کا ہے. عجم میں کفاءت کا مدار حریت اور اسلام پر ہے۔

علامہ شامیؒ لکھتے ہیں:

فلو تزوجت هاشمية قريشيا غير هاشمي لم يردّ عقدها و ان تزوجت عربيًا غير هاشمي لهم رده......الخ

ترجمہ: اگر کسی ہاشمی عورت نے کسی ایسے قریشی سے نکاح کیا جو ہاشمی نہیں تو یہ عقد قبول ہوگا. ہاں اگر وہ کسی عرب سے نکاح کرے جو قریشی بھی نہیں تو اس کے اولیاء کو اس کی واپسی کا حق ہے. 

ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ صدیقی، فاروقی اور عثمانی وغیرہم سب بنی ہاشم اور سادات بنی ہاشم کے کفو ہیں. ایسے نکاح بدوں اجازتِ اولیاء بھی درست ہیں. ہاں ان عظیم خاندانوں کے علاوہ جو دوسرے عجمی شیوخ ہیں جیسے مغل، پٹھان وغیرہ ان اقوام کا نکاح سیّد زادی سے اولیاء کی اجازت کے بغیر جائز نہیں. ہاں ان اقوام میں اگر کوئی شخص کسی مرتبے پر فائز ہو یا کوئی بلند پایہ عالمِ دین ہو تو اس کا یہ اعزاز و اکرام اسے (قاضی خاں کے نزدیک) سیّد زادی اور دوسری قریش عورتوں کا کفو بنا دیتا ہے اور الاشباہ والنظائر میں اسی طرح ہے. البتہ علامہ ابن ہمامؒ نے قاضی خاں کا قول نقل کر کے اور پھر اس کی تائید میں قاضی ابو یوسفؒ کے ایک فیصلے سے استدلال کر کے اس کفائت کے قائم نہ ہونے پر ینابیع سے ایک نقل پیش کی ہے. 

(دیکھیے فتح القدر جلد 3، صفحہ 190،مصری)

پس یہ عجمی اقوام اگر عام درجے میں ہیں تو فیصلہ یہی سمجھنا چاہیے کہ ان کا نکاح بغیر اجازتِ اولیاء کے منعقد نہ ہوگا. اور عالم ذی منصب یا شخص ذی وجاہت ہونے کی صورت میں انعقادِ نکاح تسلیم کیا جائے گا ہاں اولیاء کو فسخ کا پورا اختیار ہوگا۔

شیعہ فقہ کی معتبر کتاب شرائع الاسلام فی مسائل الحلال و الحرام میں واضح طور پر لکھا ہے کہ ہاشمی عورت کا نکاح غیر ہاشمی مرد سے بالکل جائز ہے. اس کی شرح میں فخر مجتہدین شیعہ شہید ثانی زین الدین بن علی بن احمد آملی لکھتے ہیں:

زوج النبي ابنته عثمانؓ و زوج بنته زینبؓ بابى العاصؓ وليسا من بنى هاشم وكذلك زوج علیؓ ابنته ام کلثومؓ من عمرؓ و تزوج عبدالله بن عمرو بن عثمانؓ فاطمة بنت الحسینؓ و تزوج معصب بن زبیرؓ اختھا سكينة وهم من غير بنى هاشم.

(مسلک الافہام مصنفہ 963 ھجری)

ترجمہ: آنحضرتﷺ نے ایک بیٹی کا نکاح سیدنا عثمانؓ سے اور ایک کا ابو العاصؓ سے کیا حالانکہ دونوں بنو ہاشم میں سے نہ تھے. اسی طرح سیدنا علیؓ نے اپنی بیٹی ام کلثومؓ کا نکاح سیدنا عمرؓ سے کیا سیدنا عثمانؓ کے پوتے کا نکاح سیدنا حسینؓ کی بیٹی فاطمہؓ سے ہوا اور زبیرؓ کے بیٹے کا نکاح سیدنا حسینؓ کی بیٹی سکینہؓ سے ہوا حالانکہ یہ سب مرد بنو ہاشم میں سے نہ تھے۔

مشہور شیعہ محدث ابن بابویہ قمی من لایحفرہ الفقیہ میں لکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا:

انما انا بشر مثلكم اتزوّج فيكم و ازوّجكم.

(من لایحضرہ الفقیہ صحفہ 412 ایران)

ترجمہ:میں بھی تمہاری طرح ایک انسان ہوں تم میں نکاح کرتا بھی ہوں اور تمہیں نکاح دیتا بھی ہوں۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا اپنے آپ کو بشر کہنا محض انکساری اور تواضع کے لیے نہ تھا. بلکہ اس میں حقیقت بھی تھی. اس لئے جو الفاظ محض کسر نفسی کے طور پر کہے جاتے ہیں ان پر آگے کوئی حکم مرتب نہیں کیا جاتا. احکام اسی تمہید پر مبنی ہوتے جو امر واقع ہو محض تواضع نہ ہو. یہی محدث ابن بابویہ قمی ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:

ليس سهو النبىؐ كسهونا لان سهوه من الله عزوجل وانما اسهاه ليعلم انه بشرُٗ مخلوق فلا يتخذ ربا معبودًا.

(من لایحضرہ الفقیہ جلد 1 صحفہ 98)

ترجمہ: آنحضرتﷺ کا سہو ہمارے سہو کی طرح نہیں بلکہ اس کا منشاء الله تعالیٰ کی حکمت ہے حقیقت یہ کھل جائے کہ آپ بشر مخلوق ہیں. پس یہ نہیں کہ انھیں رب اور معبود بنایا جائے.

آنحضرتﷺ کی جو صاحبزادیاں سیدنا عثمان ذو النورینؓ کے نکاح میں تھیں ان کے متعلق سیدنا جعفر صادقؓ پوری صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں کہ وہ آنحضرتﷺ کی حقیقی صاحبزادیاں تھیں. شیعہ محدثین کے نزدیک اس حدیث کی سند بالکل معتبر ہے.

(حیات القلوب للمجلسی جلد 2 صفحہ 588)

مسئلہ مذکورة الصدر میں فیصلہ یہی ہے کہ سیّد زادی کا نکاح غیر سیّد سے اس طور پر بالکل جائز ہے کہ وہ اعزاز و اکرام میں اس کا کفو ہو. اور قریش سب ایک دوسرے کے کفو ہیں اور ہاشمیہ کا نکاح غیر ہاشمی قریشی سے بالاتفاق جائز ہے.

واللہ اعلم بالصواب