سیدنا عمرؓ نے نمازِ تراویح ایجاد کی اور اسے نعمةِ البدعۃ ھٰذہ کہہ کر اچھی بدعت قرار دیا. حالانکہ پیغمبرِ اسلامﷺ نے کل بدعۃ ضلالۃ کہہ کر ہر بدعت کو گمراہی کہا تھا. بدعت میں اچھائی کیسے آ سکتی ہے اس کا جواب دیے کر مشکور فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد مستقیمکیا سیدنا عمرؓ نے تراویح کو بدعت کہا؟
اس مقام میں بعض لوگوں کی جانب سے اعتراض کیا جاتا ہے کہ
- تراویح کی نماز سیدنا عمر بن الخطابؓ نے ایجاد کی۔
- اور پھر جماعت تراویح کو نعمت البدعه هذه سے تعبیر کیا حالانکہ شریعت میں کل بدعہ ضلاله ہے اور بدعت کو مذموم قرار دیا گیا ہے، وہ اچھی کیسے ہو سکتی ہے؟؟
جواب:
اس اعتراض کے جواب کے لیے ذیل میں کلام پیش کیا جاتا ہے: اعتراض میں معترض (اعتراض کرنے والے) نے دو چیزیں ذکر کی ہیں:
¹- ایک یہ ہے کہ صلوٰۃ تراویح کی ایجاد خود سیدنا عمرؓ کی ہے، یعنی شرع کا فرمان نہیں ہے۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ تراویح کی نماز کو سیدنا عمرؓ نے بالکل ایجاد نہیں کیا بلکہ یہ تو سردار دو جہاں محمدﷺ نے (اللہ تعالیٰ کے حکم سے) جاری کی ہے اور امت کو ادا کرنے کا ارشاد فرمایا ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ:
ان رسول اللهﷺ ذکر شهر رمضان فقال شهر كتب الله علیکم صيامه وسننت لكم قيامه
ترجمہ: یعنی رسول اللہﷺ نے ماہِ رمضان کا ذکر کیا اور فرمایا کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے تم پر روزہ رکھنا واجب کیا ہے اور میں نے (اس کے حکم سے) اس ماہ میں تمھارے لیے رات کے قیام (یعنی تراویح ادا کرنے ) کا طریقہ جاری کیا۔
(السنن ابنِ ماجہ: صحفہ:95 تحت باب ماجاء فی قیام شهر رمضان، طب نظامی دہلی)
اس حدیثِ نبویﷺ سے واضح ہو گیا کہ نمازِ تراویح سیدنا عمرؓ کی ایجاد نہیں ہے بلکہ ارشادِ نبویﷺ کے موافق ادا کی جاتی ہے۔
²-اور دوسرا اعتراض کہ تراویح کو نعمه البدعه هذه کہا اور بدعت شرعاً مذموم چیز ہے تو اس کے جواب میں اکابر علماء نے اپنے اپنے دور میں جوابات تحریر کیے ہیں جن سے شبہ ہذا زائل ہو جاتا ہے اور اعتراض ساقط ہو جاتا ہے۔ ذیل میں ان بیانات کی روشنی میں چند کلمات درج کیے جاتے ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ ایک امام کے خلف میں لوگوں کو نماز تراویح کے لیے جمع کر دینے کو سیدنا عمر فاروقؓ نے بدعت باعتبار لغت کے کہا ہے کیونکہ لغت میں نئی چیز کو یا نئے کام کو بدعت کہتے ہیں، یعنی یہ ایک جدید طریقہ ہے لیکن باعتبار شرع کے بدعت نہیں فرمایا۔ جو چیز شرعاً بدعت ہو، وہ مذموم ہے۔
اس مقصد کو دوسرے الفاظ میں یوں بھی ادا کر سکتے ہیں کہ سیدنا عمرؓ کا یہ فعل باعتبار شکل و صورت کے بدعت ہے مگر باعتبار حقیقت کے بدعت نہیں ہے کیونکہ یہ امر جنابِ اقدس رسول اللہﷺ کی سنت قولی ہے، سنت فعلی ہے اور سنت تقریری بھی ہے۔ اور اس فعل پر دوام نہ فرمانا اس کے افتراض کے خوف سے ہوا تھا اور جبکہ انتقالِ نبویﷺ کے بعد یہ خشیت اور خوف نہیں رہا تو اس پر دوام کرنا صحیح ہے، بدعت نہیں ہے۔
مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے کہ:
¹-انما سماها بدعه باعتبار صورتها فان هذا الاجتماع محدث بعده عليه الصلوٰة والسلام واما باعتبار الحقيقه فليست بدعه لانه عليه السلام - انما امرهم بصلاتها فی بيوتهم للعه هی خشيه الافتراض، الخ
(مرقات شرح مشکوٰة صحفہ:186 جلد:3 ، تحت قيام شہر رمضان)
²-اور حافظ الذہبیؒ نے اپنی تصنیف المنتقی
میں اس مقولہ کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:
فسماه بدعه وما هو بالبدعه الشرعييه التي هی الضلاله اذ هی ما فعل بلا دليل شرعی و لو كان قيام رمضان جماعه قبيحا لا بطله امير المومنين على وهو بالكوفه بل روى عنه انه قال نور الله على عمر قبره كما نور علينا مساجدنا
(المنتقى للذہبیؒ صحفہ:542 بحث ابتدع التراویح)
اس کا مفہوم یہ ہے کہ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے جو (اجتماعی عمل) کو بدعت کہا ہے تو یہ بدعت شرعی نہیں ہے جو گمراہی ہوتی ہے۔
اس وجہ سے کہ بلا دلیل شرعی یہ اجتماع اور یہ فعل نہیں کیا گیا۔ اگر رمضان المبارک میں اس طرح جماعت کا قیام قبیح ہوتا تو اس چیز کو امیر المومنین سیدنا علی بن ابی طالبؓ باطل قرار دیتے، حالانکہ وہ سیدنا عمر فاروقؓ کے بعد میں کوفہ میں خلیفتہ المؤمنین اور حاکمِ وقت تھے، بلکہ ان سے اس مسئلہ پر سیدنا عمر فاروقؓ کے حق میں یہ جملہ مروی ہے کہ سیدنا علی المرتضیٰؓ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ عمر بن الخطابؓ کی قبر کو منور فرمائے جس طرح انہوں نے ہماری مساجد کو (اس اجتماعی عبادت سے) منور کر دیا ہے۔
مقصد یہ ہے کہ سیدنا علیؓ کا فعل و عمل جماعت تراویح کے عدم بدعت ہونے پر عمدہ قرینہ ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ تراویح کے اس اجتماع کو اکابر خلفائے راشدینؓ نے مستحسن قرار دیا ہے اور بدعت تصور نہیں کیا۔
اور جناب ابنِ تیمیہؓ نے مذکورہ جملہ کو اپنی تصنیف اقتضاء الصراط المستقیم کے صفحہ:276 پر بحث تراویح کے تحت مختصراً اس طرح واضح کیا ہے کہ: وهذه تسميه لغويه لا تسميه شرعيه
یعنی جماعتِ تراویح کو بدعت کہنا لغت کے لحاظ سے ہے، شرعی لحاظ سے نہیں ہے۔
علماء کرام کی ان صریحات و تشریحات کے پیشِ نظر مذکورہ شبہ اور اعتراض بالکلیتہ زائل ہو جاتا ہے۔