بخدمت حضرت علامہ خالد محمود صاحب دامت برکاته، السلام علیکم. ہفت روزہ دعوت کے رسول کریمﷺ نمبر میں ایک حدیث لکھی ہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ میں اور ابوبکرؓ اور عمرؓ ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں۔ ایک دوست نے پوچھا ہے کہ یہ حدیث کہاں ہے. وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جب آنحضرتﷺ نور تھے تو پھر مٹی سے پیدا ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ آپ اس کی تفصیل فرمائیں ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبد الصمد نور بازار خانیوالجواب
آپ کے جس دوست نے یہ سوال اٹھایا ہے وہ غالباً سبائی ہو گا۔ حدیث میں آنحضرتﷺ، سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ کے ایک ہی مٹی سے پیدا ہونے اور پھر ایک ہی مٹی میں دفن ہونے کا بیان ہے. اور ظاہر ہے کہ اس میں سیدنا ابوبکرؓ اور سیّدنا عمرؓ کی وہ فضلیت نکلتی ہے کہ اس میں ان کا کوئی سہیم اور برابر نہیں. آپ کے دوست کو اصل میں تو اس حقیقت کا انکشاف پسند نہ ہوگا کہ سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ کس مٹی سے بنے تھے اور ظاہر میں اس نے نور وبشر کا سہارا لے لیا ہو گا۔
خطیب بغدادی (462 ھجری) نے کتاب المتفق و المفترق میں سیدنا عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت کی ہے کہ حضور اقدسﷺ نے فرمایا ہے :
ما من مولود الأ وفي سرّته من تربته التي خلق منها حتى يدفن فيها و انا و ابو بكر و عمر خلقنا من تربة واحدة وفيها ندفن.
ترجمہ:”ہر بچہ کے ناف میں اس مٹی کا حصہ ہوتا ہے جس سے وہ بنایا گیا۔ یہاں تک کہ اس میں دفن ہو جائے. اور میں اور ابوبکر اور عمر ایک ہی مٹی سے بنے ہیں اور اسی میں دفن ہوں گے“.
آنحضرتﷺ کو جو نور کہا جاتا ہے وہ باعتبارِ صفات اور باعتبارِ رشد و ہدایت کے ہے. نور کیا آپ تو منیر تھے بمعنی ”دوسروں کو نور بنانے والے“. جس آفتابِ رشد و ہدایت نے لاتعداد ذرّوں کو نورِ ایمان سے منور کر دیا اس کے اپنے نور ہونے میں کسے کلام ہو سکتا ہے۔ ہاں ذات کے لحاظ سے اور نوع کے اعتبار سے آپﷺ یقینا انسان تھے اور نوعِ بشر میں سے تھے۔ امام ربانی سیدنا مجدد الف ثانیؒ سرہند شریف والے ارشاد فرماتے ہیں :
”اے برادر! محمد رسول اللہﷺ بآں علو شان بشر بود“.
(ذقراول نمبر 173، صفحہ 177)
ترجمہ:”اے بھائی! آنحضرتﷺ اس قدر بلند شان کے باوجود بشر تھے“۔
مقام غور:
اس حدیث سے حضورﷺ کا اور سیدنا ابو بکرؓ اور عمرؓ کا ایک ہی خمیر سے پیدا ہونا اور اپنی ذات میں ایک ہونا از خود واضح ہو جاتا ہے۔ آپ کے دوست بے شک حضور کو نور کہیں لیکن یہ ضروری ہے کہ اس کے ساتھ سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو بھی نور ہی مانیں، خواہ اپنے اپنے درجہ کے. اور یاد رکھیئے کہ ایسے نور کا دعویٰ جس میں بشریت کا انکار ہو یہ اہلِ سنت کے اپنے گھر کی آواز نہیں۔ بلکہ غیروں نے سیدنا ابوبکرؓ کو آنحضرتﷺ سے الگ کرنے کے لیے ان مسئلوں کو ہوا دے رکھی ہے۔ تاکہ پھر یہ نتیجہ پیدا کر سکیں کہ جب حضورﷺ نور تھے تو پھر ان کا جانشین بشر کیسے ہو سکتا ہے۔ پھر تو ان کا جانشین یطهركم تطهیرا کا مصداق ”نورانی وجودِ مسعود“ ہی ہونا چاہئیے.
ہفت روزہ ”دعوت“ کا مسلک یہی ہے کہ ہر وہ کوشش جو سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو حضورﷺ سے جدا کرے وہ غلط ہے. اور نوعِ بشریت میں یہ تینوں ہستیاں برابر کی شریک ہیں۔ تفاضل اپنی اپنی صفاتِ کاملہ کے اعتبار سے قائم ہے۔ حضرت امام ربانی مجددالف ثانیؒ فرماتے ہیں:
”نمے بینی که انبیاء علیہم الصلاۃ والتسلیمات با عامه در نفس انسانیت برابر اند و در حقیقت و ذات همه متحد تفاضل باعتبار صفات کامله آمده است“.
(مکتوبات شریف، جلد 1، صفحہ 329)
پھر یہ بھی یاد رکھیئے کہ اس مسئلہ میں اہلِ سنت کے مختلف مکاتبِ فکر میں کوئی اختلاف نہیں. مفتی نعیم الدین صاحب مراد آبادی بریلوی مکتبِ فکر کے مسلم بزرگ اور پیشوا ہیں۔ وہ کتاب العقائد میں تصریح فرماتے ہیں :
”انبیاء وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے“.
(کتاب العقائد نبوت کا بیان، جلد 6، طبع دہم سنہ 53ء)
اور پھر آپ نے ہفت روزہ ”دعوت“ کے رسول کریمﷺ نمبر کے حوالہ سے جو حدیث پوچھی ہے کہ حضورﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ و عمرؓ ایک ہی مٹی سے پیدا کئے گئے. وہ حدیث خود مولوی احمد رضا خاں صاحب نے بھی اپنے فتاوی افریقہ میں نقل کی ہے۔ بلکہ اس کے ساتھ امامِ حدیث حکیم ترمذی کی نوادر الاصول سے یہ الفاظ بھی نقل کئے ہیں :
و ياخذ التراب الذي يدفن في بقعة وتعجن به نطفته فذلك قوله تعالى منها خلقناكم وفيها نعيدكم.
(فتاویٰ افریقہ صفحہ 85)
ترجمہ: ”فرشتہ وہاں کی مٹی لیتا ہے جہاں اسے دفن ہونا ہوتا ہے. اسے نطفہ میں ملا کر گوندھتا ہے. یہ ہے مولی تعالی کا ارشاد کہ زمین ہی سے ہم نے تمہیں بنایا اور اسی میں پھر تمہیں ہم لے جائیں گے“
مسند عبد بن حمید میں عطائے خراسانی سے روایت ہے کہ فرمایا:
ان الملك ينطلق وياخذ من تراب المكان الذي يدفن فيه فيذره على النطفة فيخلق من التراب ومن النطفة وذلك قوله تعالى منها خلقناكم وفيها نعيدكم.
ترجمہ: ”فرشتہ جا کر اس جگہ کی مٹی لا کر اس نطفہ پر چھڑکتا ہے تو آدمی اس مٹی اور بوند سے بنتا ہے اور یہ ہی ہے مولا تعالیٰ کا ارشاد کہ ہم نے تمہیں زمین سے ہی بنایا اور اسی میں تمہیں پھر لیجائیں گے“۔
شیعہ کے مشہور مقتداء پیشوا مولوی مقبول احمد دہلوی اپنے ترجمہ قرآن کے حاشیہ پر ائمہ اہلبیت سے بھی اس آیت شریفہ کی تفسیر اسی طرح نقل کرتے ہیں :
”کافی میں سیدنا جعفر صادقؒ سے منقول ہے کہ نطفہ جب رحم میں پہنچ جاتا ہے تو خدا تعالیٰ ایک فرشتے کو بھیج دیتا ہے کہ وہ اس مٹی میں سے جس میں یہ شخص دفن ہونے والا ہے تھوڑی سی لے آئے چنانچہ وہ فرشتہ لا کر اس نطفہ میں ملا دیتا ہے اور اس شخص کا دل ہمیشہ اسی مٹی کی طرف مائل ہوتا رہتا ہے جب تک کہ اس میں دفن نہ ہو جائے“.
(صفحہ 627 پارہ 16)
پس اس یقین سے چارہ نہیں کہ آنحضرتﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کا خمیرِ طیب ایک ہی پاک مٹی سے اٹھایا گیا تھا۔ یہ صحیح ہے کہ سیدنا عمرؓ اس وقت ایمان لائے جب 39 افراد ایمان لا چکے تھے. چالیسویں آپ تھے. صفِ اسلام کا پہلا چلّہ آپ پر پورا ہوا. لیکن اس کی حیثیت بالکل اسی طرح ہے کہ سونے پر گرد پڑی ہو اور اس کی چمک دکھائی نہ دے. کسی کامل نے پھونک لگائی اور وہ گرد اڑ گئی. سونا اپنی چمک سے دمک اٹھا، سو آپ کا دیر میں اسلام لانا آنحضرتﷺ اور سیدنا ابوبکرؓ صدیق سے یک خمیر ہونے کے منافی نہیں۔ آپؓ جس خاندان سے تھے وہ عہدِ جاہلیت میں بھی شرک سے طبعاً متنفر تھا. ممکن ہے اس کی وجہ بھی یہی ہو ۔
واللہ اعلم بالصواب۔
خالد محمود عفا اللہ عنہ