1: اگر یہ بارہ حضرات جنہیں اثناء عشری شیعہ مامور من اللّٰہ امام سمجھتے ہیں. اس بارہ علماء والی حدیث کا مصداق نہیں تو انہیں امام کیوں کہا جاتا ہے؟ 2: علمی مسائل میں کتابوں میں جو لفظ حسن آتا ہے جیسے قال الحسن عن الحسن اس سے کون امام مراد ہوتے ہیں کیا یہ حسن بن علیؓ ہیں؟ یا کوئی اور حسن ہیں؟ 3: واقعۂ کربلا کے بعد سیدنا علیؓ بن الحسینؓ زین العابدینؓ کا سیاسی کردار کیا رہا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے یزید کی حکمرانی قبول کر لی تھی؟
سوال پوچھنے والے کا نام: رحمانجواب
یہ بارہ حضرات نہ ہی بارہ خلفاء والی حدیث کا مصداق ہیں نہ مامور من اللّٰہ امام، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ باغِ نبوت کے خوشبودار پھول تھے، سڑے ہوئے نہیں. علم و عمل اور اَخلاق و مروت میں ان سے خانوادۂ نبوت کی خوشبو آتی تھی. علم و تقوی میں انہیں امام کہنا یہ شیعہ اصطلاح سے ہرگز موافقت نہیں ہے اور ہمارے بزرگوں میں سے حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے سیدنا جعفر صادقؓ کے الفاظ استعمال کیے ہیں.
سیدنا زین العابدینؓ کا حدیث میں کیا مرتبہ تھا؟
کان ثقة مامونا کثیر الحدیث.
(طبقاتِ ابنِ سعد جلد 5 صحفہ 164)
سیدنا ابوھریرہؓ اور سیدنا سعیدؒ بن المسیبؓ کے شاگرد تھے.
(تہذیب جلد 7، صفحہ 304)
اور امام زہریؒ کے استاد.
فقہ میں کیا مرتبہ تھا؟
مدینہ کے سات مشہور فقہاء کے بعد آپؒ ہی کا نام آتا ہے.
(اعلام الموقعین لابن قیم جلد 1، صفحہ 22)
کثرتِ عبادت کی وجہ سے زین العابدینؓ کے نام سے یاد کیے جاتے.
(تہذیب جلد 7، صفحہ 306)
آپؒ کے وقت میں بنو ھاشم میں آپ سے آگے کوئی اور نہ تھا.
(تہذیب الأسماء للنووی، جلد 1، صفحہ 343).
اس تعارف میں آپکو امام کہنا یہ کوئی بڑی غلطی نہیں ہے. ذرا وسعتِ قلب سے کام لیجئے۔
سیدنا باقرؒ کا نام محمد تھا لیکن علمی گہرائی نے انہیں باقر کا لقب دے رکھا تھا. عرب کہتے ہیں بقر العلم ”وہ علم کو پھاڑ کر اسکی تہہ میں پہنچ گیا“. امام نووی انہیں امام بارع (ماہرِ فن امام) کہتے ہیں.
(تہذیب الاسماء جلد 1، صفحہ 87)
اور مدینہ کے فقہاء میں سے شمار کرتے ہیں. امام نسائی کی جلالتِ قدر سے کسے اختلاف ہے وہ آپکو فقہاء تابعین میں شمار کرتے ہیں. ان حالات میں آپکو امام کہنا کوئی بڑی غلطی نہیں۔
سیدنا جعفر صادقؓ کو علامہ ذہبی نے امام اور
احد السادۃ الاعلام نہیں لکھا؟
(تذکرۃ الحفاظ جلد 1، صفحہ 149).
ابن سعد نے کیا آپکو کثیر الحدیث نہیں لکھا؟
(نقلہ ابن حجر فی التہذیب جلد 2، صفحہ 104).
کیا امام مالکؒ اور امام ابو حنیفہؒ نے آپ کی جلالتِ علم کا اعتراف نہیں کیا؟
(ایضاً)
امام ربانی مجدد الف ثانیؒ نے کیا آپ کو امام نہیں لکھا؟ اگر آپکو علم، حلم اور زہد و تقویٰ میں امام کہا جائے تو سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کونسی بڑی غلطی ہے. جن حلقوں میں امام زفرؒ، امام حسن بن زیادؒ، امام غزالیؒ، امام رازیؒ اور امام ابن الہمامؒ اور امام ابن نجیمؒ، امام شاہ ولی اللّٰہؒ، اور امام مولانا محمد قاسم نانوتویؒ کے اطلاقات عام ہوں، وہاں ان بزرگوں کے نام کے ساتھ امام لکھنے سے شیعہ اصطلاح سے توافق کا ابہام پیدا ہو گا. یہ بات ہماری سمجھ سے بالاتر ہے۔
2: علمی کتابوں میں جہاں لفظ حسن آتا ہے وہاں عام طور پر امام حسن بصریؒ (110ھجری) مراد ہوتے ہیں. صحابیِ رسول ہونے کی شان کو اگر ایک طرف رکھیں تو تفسیر، حدیث، فقہ میں آپ کی خدمات سیدنا حسن بن علیؓ سے کہیں زیادہ ہیں. ہاں سیدنا حسن بن علیؓ نے مسلمانوں کے جھنڈے کو پھر سے ایک کرنے کی جو عظیم قومی اور ملی خدمت انجام دی اس کا مقابلہ ہفت اقلیم نہیں کر سکتے. فقہ حنفی کی کتابوں میں جہاں قال الحسن آجائے اس سے امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد حسن بن زیادؒ مراد ہوتے ہیں ۔
3: واقعہ کربلا کے بعد سیدنا امام زین العابدینؓ نے یزید کی حکومت کو تسلیم کر لیا تھا.
(فروعِ کافی جلد 3، صفحہ 110، کتاب الروضہ طبع لکھنؤ).
یہ اسی درجے میں تسلیم کرنا تھا جس طرح سیدنا عبداللّٰہ بن عمرؓ نے یزید کی حکومت تسلیم کی تھی کہ مزید خونریزی نہ ہو اور عوام خطرے میں نہ پڑے. یہ نہیں کہ یہ دونوں حضرات یزید سے خوش تھے.
سیدنا زین العابدینؓ اپنے اس سیاسی موقف پر ثابت قدمی سے قائم رہے. یزید کے خلاف نواسۂ صدیقؓ سیدنا عبداللّٰہ بن زبیرؓ اٹھے اور اہلِ حجاز نے انہیں خلیفہ مان لیا اور اموی حکام کو حرمین شریفین سے نکال دیا گیا. تو سیدنا زین العابدینؓ ان مجاہدین کے ساتھ قطعاً شامل نہ ہوئے اور حکومت سے وفا کا جو عہد باندھا تھا اس پر برابر قائم رہے. مدینہ میں یزید کے فوجی جنرل مسلم بن عقبہ نے ان سے ملاقات کی اور آپ کا بہت شکریہ ادا کیا. پھر مختار بن ابی عبید ثقفی واقعۂ کربلا کا بدلہ لینے کے لیے یزید کے خلاف اٹھا. لیکن آپ نے انکا قطعاً ساتھ نہ دیا. پھر آپ نے مسجدِ نبوی میں جا کر اسکے خلاف تقریر کی. آپکو علم تھا کہ سینکڑوں کذاب اور منافق سیدنا حسینؓ کی عزاداری میں اٹھے گے اور ان میں سے کوئی بھی مخلص اور صادق العمل نہ ہو گا. عبدالملک بن مروان نے جب خلافت سنبھالی تو آپ نے اس سے بھی صلح کر لی ان لوگوں نے کلیۃً احتراز کیا جو حبِ اہلِ بیت کے نام سے امت میں تفریق و انتشار پیدا کرنا چاہتے تھے.
سو آپ کا یزید کی حکومت کو تسلیم کرنا ان حالات میں آپکا فقہی فیصلہ تھا. یہ نہیں کہ آپ اسوقت یزید کے سیاسی کردار سے خوش تھے یا یہ کہ آپ اپنے باپ سیدنا حسینؓ کے سیاسی کردار کو غلط سمجھتے تھے. ایسا ہرگز نہیں تھا.
واللہ اعلم بالصواب۔