Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

انبیاء علیہم السلام کی وراثت نہیں ہوتی تو پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المومنین حجروں میں کیسے رہیں ؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   شکیل احمد

جواب

قرآنِ پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں۔

وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِكُنَّ

اے نبی کی بیویوں تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو۔

اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے تو گھروں کی نسبت نبیﷺ کی بیویوں کی طرف کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر نبی کی بیویوں کی اپنی ملکیت میں تھے۔ 

یہ اس وقت کی بات ہے جب نبی کریمﷺ ابھی حیات تھے یعنی حضورﷺ کے زمانہ حیات میں ہی اللہ تعالیٰ نے ان گھروں کی نسبت حضورﷺ کی بیویوں کی طرف کی ہے۔

تو پھر اس پر یہ کیسے سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ بیویاں نبی کریمﷺ کے بعد اپنے ان گھروں میں کیسے ٹھہری رہیں؟

اس مسئلہ میں تحقیقی بات یہ ہے کہ علمائے اسلام کے اس بارے میں دو قول ہیں ایک قول تو یہ ہے کہ نبی کریمﷺ نے یہ گھر بنوا کر اپنی بیویوں کو ہبہ کر دیے تھے اور ہبہ میں قبضہ شرط ہوتا ہے پس حضورﷺ نے یہ گھر اپنی بیویوں کو دیے اور بیویوں کا ان پر قبضہ بھی ہو گیا تو یہ ہبہ مکمل ہو گیا گویا یہ گھر ان بیویوں کے ہی ہو گئے ان حضرات کی دلیل قرآنِ پاک کی یہی درج بالا آیت ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان گھروں کی نسبت حضورﷺ کی بیویوں کی طرف کی ہے۔

علمائے اسلام کا دوسرا قول یہ ہے کہ یہ گھر نبی کریم ﷺ کی ہی ملکیت میں تھے۔اور ازواجِ مطہراتؓ کا ان گھروں میں رہنا ایسا ہی تھا جیسا کہ زمانۂ حیات میں، کیونکہ حضورﷺ کی بیویوں کے لیے آگے کسی اور سے نکاح کرنا جائز نہیں تو گویا وہ ایسے ہی رہیں جیسا کہ زمانۂ حیات میں رہتی تھیں تو جب زمانۂ حیات میں شوہر پر اپنی بیوی کا نفقہ اور سکنی واجب ہوتا ہے اسی طرح حضورﷺ کی بیویاں ان کے زمانۂ حیات کے بعد بھی ان کی زوجیت میں رہیں اور ان کو رہاٸش اور سال بھر کا خرچ فدک وغیرہ باغوں کے ذریعے سے حاصل ہوتا رہا۔پھر جب ان ازواجِ مطہراتؓ کا انتقال ہو گیا تو ازواجِ مطہراتؓ کے حجرات کو مسجد کا حصہ بنا دیا گیا۔اس دوسرے قول کی دلیل بھی قرآن پاک کی آیت ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ

(سورۃ الاحزاب: آیت 53)

بہرحال اپنے پرائے کسی کایہ مسلک نہیں کہ ازواجِ مطہراتؓ کو ان کے حجرے وراثت کے طور پر حاصل تھے۔