مرحب کو کس نے قتل کیا تھا سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے یا محمد بن مسلمہؓ نے ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: Muhammad Shahzadجواب
اس سلسلہ کی قابلِ اعتماد روایات ملاحظہ فرمائیں:
مرحب اور سیدنا محمد بن مسلمہؓ کا مقابلہ ہوا دونوں پینترا بدلتے رہے یہاں تک کہ سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے اس پر ضرب لگائی، اور اس کے دونوں پاؤں کاٹ کر چھوڑ دیا، اور کہا: اب موت کا مزا چکھو، جس طرح میرے بھائی محمود نے چکھا ہے۔ تب اس کے پاس سے سیدنا علیؓ گزرے اور اس کی گردن الگ کردی، چنانچہ رسول اللہﷺ نے سیدنا محمد بن مسلمہؓ کو اس کی تلوار اور نیزہ خود دے دیا۔
(مسند احمد:جلد 3 صفحہ383 ، مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 436، ابنِ ہشام:جلد 2 صفحہ 333، 334۔ اس کی سند صحیح ہے۔ ہیثمی نے لکھا ہے: مسند احمد کی روایت کے رواۃ ثقات ہیں۔ زاد المعاد: جلد 3 صفحہ 252،253)
اسی طرح امام مسلمؒ نے سیدنا سلمہ بن الاکوعؓ سے روایت کی ہے کہ مرحب کو سیدنا علیؓ نے قتل کیا تھا، سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے نہیں۔ روایت میں یوں آیا ہے کہ مرحب نے نکل کر کہا: سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں، جب جنگ کی آگ بھڑکتی ہے تو میں ہتھیاروں سے لیس تجربہ کار پہلوان ثابت ہوتا ہوں، تو سیدنا علیؓ نے کہا: میرا نام میری ماں نے حیدر رکھا ہے، میں جنگل کا وحشی شیر ہوں، میں دشمن کو اس کا پورا حساب چکاتا ہوں۔ سیدنا مسلمہؓ کہتے ہیں پھر انہوں نے مرحب کے سر پر کاری ضرب لگا کر اسے قتل کردیا۔ چنانچہ انہی کے ہاتھوں قلعہ فتح ہوا۔
(صحیح مسلم،الجہاد، حدیث:1807)
امام حاکمؒ نے مستدرک میں لکھا ہے کہ بہت سی اسانید کے ذریعہ متواتر خبروں سے ثابت ہے کہ مرحب کو سیدنا علیؓ نے قتل کیا تھا، اور حافظ ذہبیؒ نے ان کے قول کی تائید کی ہے۔
(مستدرک حاکم: جلد 3 صفحہ 437)
اور محمد بن اسحاقؒ نے لکھا ہے کہ خیبر میں مرحب یہودی کو سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے قتل کیا تھا۔ اورامام شافعیؒ نے اپنی کتاب المختصر میں لکھا ہے کہ نبی کریمﷺ نے خیبر کے دن مرحب کا سلاح و متاع سیدنا محمد بن مسلمہؓ کو دیا تھا، انہوں نے یہ بات جامع السیر کے پہلے باب میں بیان کی ہے۔ گویا یہ ان کی تصریح ہے کہ مرحب کو سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے قتل کیا تھا، اور اس سلسلہ کی حدیث ثابت اور صحیح ہے جیسا کہ سیدنا جابرؓ سے مروی حدیث کی تخریج میں ذکر کیا گیا ہے۔
حدیثِ جابرؓ اور حدیثِ سلمہ بن الاکوعؓ کے درمیان توفیق امام واقدی کے قول کے مطابق اس طرح ممکن ہے کہ پہلے سیدنا محمد بن مسلمہؓ نے مرحب کی دونوں پنڈلیوں کو کاٹ کر چھوڑ دیا تاکہ وہ انتہائی اذیت ناک موت مرے۔اس لیے کہ اُن کا مرحب سے مقابلہ کرنا اور اس سے اپنے بھائی محمود کا انتقام لینے کا شدید ترین جذبہ ثابت ہے، جنہیں مرحب نے اسی طرح کاری ضرب لگا کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا تھا، پھر اس کے پاس سے سیدنا علیؓ بن ابو طالب گزرے اور اس کا سر الگ کردیا۔اور چونکہ سیدنا جابرؓ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے،اس لیے دونوں حدیثوں میں توفیق پیدا کرنا ہی صحیح ہے۔