افضلیت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پر دلیل قطعی کیا ہے ؟
سوال پوچھنے والے کا نام: حافظ حسنجواب
قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
اِلَّا تَـنۡصُرُوۡهُ فَقَدۡ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذۡ اَخۡرَجَهُ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اِذۡ يَقُوۡلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحۡزَنۡ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ۚ فَاَنۡزَلَ اللّٰهُ سَكِيۡنَـتَهٗ عَلَيۡهِ وَاَ يَّدَهٗ بِجُنُوۡدٍ لَّمۡ تَرَوۡهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوا السُّفۡلٰى ؕ وَكَلِمَةُ اللّٰهِ هِىَ الۡعُلۡيَا ؕ وَاللّٰهُ عَزِيۡزٌ حَكِيۡمٌ
(سورۃ التوبہ:آیت 40)
ترجمہ: اگر تم ان کی (یعنی نبی کریمﷺ کی) مدد نہیں کرو گے تو (ان کا کچھ نقصان نہیں، کیونکہ) اللہ ان کی مدد اس وقت کر چکا ہے جب ان کو کافر لوگوں نے ایسے وقت (مکہ سے) نکالا تھا جب وہ دو آدمیوں میں سے دوسرے تھے، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ:غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ چنانچہ اللہ نے ان پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی، اور ان کی ایسے لشکروں سے مدد کی جو تمہیں نظر نہیں آئے، اور کافر لوگوں کا بول نیچا کر دکھایا، اور بول تو اللہ ہی کا بالا ہے، اور اللہ اقتدار کا بھی مالک ہے، حکمت کا بھی مالک۔
اس آیت میں دو جملے نہایت قابلِ غور ہیں:
1)ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ اِذۡ هُمَا فِى الۡغَارِ اس جملے میں دو جگہ پر سیدنا ابوبکر صدیقؓ اور نبی کریمﷺ کو ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر بیان کیا گیا ہے ثَانِىَ اثۡنَيۡنِ میں اور هُمَا تثنیہ کی ضمیر میں ان میں ایک تو نبی کریمﷺ ہیں جیسا کہ آیت کے بیان سے ظاہر ہے اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ہیں جیسا کہ پوری امت کا اس پر اتفاق اور اجماع ہے۔
جیسے معراج کا سفر نہایت عظیم الشان تھا ایسے ہی ہجرت کا سفر بھی نہایت عظیم الشان تھا ان دونوں سفروں میں رسول اللہﷺ کی معیت و رفاقت کے لیے بھی عظیم الشان لوگوں کا ہی انتخاب کیا گیا۔
اب اس میں تو کسی کو کلام نہیں کہ سفر معراج میں رفاقت اختیار کرنے والے حضرت جبرائیل علیہ السلام سب فرشتوں کے سردار ہیں۔ یہی اتفاق اس بات کی دلیل ہے کہ سفر ہجرت میں رفاقت اختیار کرنے والے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ بھی انبیاء کے بعد سب سے افضل اور امت کے سردار ہیں۔
2) اس آیت کا دوسرا قابلِ غور جملہ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا ہے یہاں اللہ تعالیٰ نے ان دونوں قدسی صفت حضرات کے ساتھ جو اپنی معیت بیان فرمائی ہے تو اس کے لیے مَعَنَا کی تعبیر اختیار فرمائی ہے نہ کہ معی اور معک کی۔
یعنی اللہ تعالیٰ کی معیت ان دونوں حضرات کے ساتھ برابر ہے اور اس معیت کے درمیان میں ان دونوں حضرات کے ساتھ تعلق کے حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ جملہ بھی انبیاء کے بعد سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی افضلیت پر واضح طور پر دلالت کر رہا ہے۔
اس عنوان پر احادیث کا ذخیرہ وافر مقدار کے اندر موجود ہے مگر قرآن کریم کی یہ آیت چونکہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کو بیان کرنے میں قطعی الدلالت بھی ہے اور قطعی الثبوت بھی!
اس لیے ہم عرض گزار ہیں کہ یہ آیت سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی افضلیت کو ثابت کرنے میں قطعی (واضح قرآنی دلیل) ہے۔