Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مال فئ کے جو اللہ تعالی نے سورت حشر میں 9 مصارف بیان کیے ہیں کیا ان لوگوں کو باغ فدک، بنو نظیر وقریظہ کے اموال تقسیم کرکے دیئے نام لگا دیئے گئے تھے یا صرف ان اموال فئی میں سے ان لوگوں خرچہ ملتا تھا؟؟؟ اب سوال یہ ہے کہ ان باغات سے مستحق لوگوں کو خرچہ ملتا تھا یا کسی کے نام بھی الاوٹ ہوئے؟؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   رحمان

جواب 

مال فٸے اس مال کو کہتے ہیں جو بغیر جنگ کیے کافروں سے حاصل ہو جائے سورۃ حشر کی چھٹی آیت میں بیان ہوا ہے کہ یہ مال خالص حضورﷺ کی ملکیت میں ہے پھر اگلی آیت میں اس مال کے دیگر مصارف بیان فرما دیے گئے اور نبی کریمﷺ نے اس مال کے حاصل ہونے کے بعد قرآن پاک میں بتائے ہوئے مصارف کے مطابق مال فٸے تقسیم فرما دیا۔

تفسیر مظہری میں ہے: 

بنو نظیر کا مال جب نبی کریمﷺ کے ہاتھ میں آیا تو آپﷺ نے ثابت بن قیس بن شماس کو طلب فرمایا اور حکم دیا میرے پاس اپنی قوم والوں کو بلا لاؤ ثابتؓ نے عرض کیا ۔کیا خزرج کو؟

 فرمایا نہیں بلکہ تمام انصار کو۔

 حسب الحکم ثابتؓ نے تمام اوس اور خزرج والوں کو بلا لیا جب سب آگئے تو حضورﷺ نے کلام شروع کیا اور اللہ کی حمد و ثناء کی پھر انصار کا اور مہاجرین کے ساتھ انصار کے حسن سلوک کا اور اپنے مکانوں اور مالوں میں مہاجرین کو جگہ دینے کا اور مہاجرین کے لیے انصار کے ایثار کرنے کا ذکر کیا اس کے بعد فرمایا اللہ نے بنی نظیر کا جو متروکہ مال مجھے عنایت فرمایا ہے اگر تم چاہو تو میں وہ متروکہ مال تم کو اور مہاجرین کو برابر تقسیم کر دوں؟

 اس صورت میں مہاجرین ان حالات پر قائم رہیں گے جس پر اب ہیں۔ یعنی تمہارے گھروں اور تمہارے مالوں میں سکونت و شرکت!

 اور اگر تم پسند کرو تو میں یہ مال انہیں دے دوں تم کو نہ دوں اس صورت میں وہ تمہارے گھروں کو چھوڑ دیں گے اور چلے جائیں گے۔

 یہ تقریر سن کر سیدنا سعد بن عبادہؓ اور سیدنا سعد بن معاذؓ نے باہم مشورہ کے بعد عرض کیا یا رسولﷺ آپ یہ مال مہاجرین کو ہی تقسیم کر دیں اور جیسے وہ اب ہمارے گھروں میں رہتے ہیں آئندہ بھی رہتے رہیں گے۔

 دونوں سرداروں کا یہ فیصلہ سن کر انصار نے پکار کر کہا یا رسولﷺ ہم اس پر راضی ہیں۔ ہمیں یہ منظور ہے حضورﷺ نے ان کو دعا دی اے اللہ انصار پر رحمت نازل فرما۔ اس کے بعد بنی نظیر کا جو متروکہ مال اللہ نے اپنے رسولﷺ کو عنایت فرمایا تھا وہ آپﷺ نے تقسیم کر دیا صرف مہاجرین کو عطاء فرمایا اور انصار میں سے سوائے دو محتاج آدمیوں کے اور کسی کو نہیں دیا ایک سہل بن حنیف دوسرے ابو دجانہ البتہ سیدنا سعدؓ کو ابنِ ابی الحقیق کی تلوار عنایت کر دی اس تلوار کی بڑی شہرت تھی۔ 

تفسیر مظہری جلد11، صفحہ 247

اس تفصیل سے معلوم ہو گیا کہ نبی کریمﷺ نے مال فٸے تقسیم کر کے ان حضرات کو مالک بنا دیا تھا۔

البتہ نبی کریمﷺ نے خاص اپنے لیے جو حصہ یا باغات رکھے تھے وہ حضورﷺ کے گھر والوں پر خرچ ہوتے رہے اور جو کچھ باقی بچ جاتا تھا تو وہ اللہ کے راستے میں اور اجتماعی کاموں میں صرف کیے جاتے تھے۔

نبی کریمﷺ نے اپنی صوابدید کے مطابق جتنے حضرات کو مال فئے میں سے کچھ عنایت فرمایا تو ان کو اپنے حاصل شدہ حصہ کا مالک بنا دیا۔