Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کا حق مہر اور جہیز مین کیا تھا اور کتنا تھا

سوال پوچھنے والے کا نام:   علی

جواب

نبی کریمﷺ کے مبارک زمانہ میں نکاح کے وقت لڑکی کو جہیز دینے کا عمومی رواج نہیں تھا، صرف آپﷺ کی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں جہیز کا ذکر ملتا ہے لیکن اس کے بارے میں بھی علماء کی دو آراء ہیں۔

بعض علماء یہ فرماتے ہیں کہ یہ جہیز نبی کریمﷺ نے اپنی طرف سے اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا تھا جب کہ دوسرے بعض علماء کی رائے یہ ہے کہ جہیز کا سامان نبی کریمﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مال سے اور ان کے پیسوں سے خریدا تھا، اور چونکہ نبی کریم ﷺ سیدنا علیؓ کے سرپرست بھی تھے اس لیے آپﷺ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے مال سے جہیز کا سامان خرید کر ان کے گھر میں ضرورت کے سامان کا انتظام فرمایا تھا۔

اگر نبی کریمﷺ نے اپنی طرف سے بھی جہیز کا سامان خرید کر اپنی صاحبزادی کو عطا فرمایا ہو تو روایات میں جہیز کی جن چیزوں کا ذکر ملتا ہے وہ صرف گھریلو ضرورت کی وہ چیزیں تھیں جو روز مرہ کے استعمال کی تھی، نسائی کی روایت میں ہے کہ نبی کریمﷺ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں ایک پلو دار چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ دیا تھا جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی، مسند احمد کی روایت میں ہے کہ ایک لحاف، ایک گدّا، دو چکیاں، ایک مشکیزہ اور دو مٹی کے گھڑے جہیز میں عطا فرمائے تھے، مواہبِ لدنیہ کی روایت میں ایک چارپائی کا بھی ذکر ملتا ہے۔

نبی کریمﷺ کی بیٹیوں کا جو مہر تھا، اس کی مقدار ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی منقول ہے، ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے تو اس حساب سے پانچ سو درہم بنتے ہیں۔

سنن النسائی میں ہے:

عن علي رضي الله عنه قال: جهز رسول الله صلى الله عليه وسلم فاطمة في خميل وقربة ووسادة حشوها إذخر۔

(سنن النسائی، جلد 6، کتاب النکاح، جہاز الرجل ابنتہ، صفحہ135، ط: مکتب المطبوعات الاسلامیہ)

الترغیب و الترہیب میں ہے:

عن علي رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما زوجة فاطمة بعث معها بخميلة، ووسادة من أدم حشوها ليف، ورحيين، وسقاء، وجرتين رواه أحمد واللفظ له.

(الترغیب و الترہیب، جلد2، کتاب الذکر و الدعا، الترغیب فی آیات و اذکار بعد الصلاۃ المکتوبات، صفحہ 452، ط: دار احیاء التراث العربی)

مواہبِ لدنیہ میں ہے:

عن أنس قال: جاء أبو بكر ثم عمر يخطبان فاطمة إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسكت ولم يرجع إليهما شيئا فانطلقا إلى علي رضي الله عنه يأمرانه بطلب ذلك. قال علي: فنبهاني لأمر، فقمت أجر ردائي حتى أتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقلت: تزوجني فاطمة؟ قال: وعندك شيء؟ فقلت: فرسي وبدني، قال: أما فرسك فلا بد لك منها وأما بدنك فبعها، فبعتها بأربعمائة وثمانين، فجئته بها، فوضعتها في حجره، فقبض منها قبضة فقال:أي بلال: ابتع بها لنا طيبا وأمرهم أن يجهزوها، فجعل لها سرير مشروط، ووسادة من أدم حشوها ليف.

(المواهب اللدنية مع شرح الزرقاني، جلد 2، کتاب المغازی، صفحہ360، ط: دار الکتب العلمیہ)

سنن دار قطني ميں ہے:

عن أنس بن مالك،أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لا ‌يحل ‌مال امرئ مسلم إلا بطيب نفسه۔

(سنن الدارقطني، جلد 3، كتاب البيوع، صفحہ 424، ط مؤسسة الرساله)

مشکوٰۃ المصابیح میں ہے:

عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال: ألا لا تغالوا صدقة النساء فإنها لو كانت مكرمة في الدنيا وتقوى عند الله لكان أولاكم بها نبي الله صلى الله عليه وسلم ما علمت رسول الله صلى الله عليه وسلم نكح شيئا من نسائه ولا أنكح شيئا من بناته على أكثر من اثنتي عشرة أوقية. رواه أحمد والترمذي وأبو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي۔

(مشکوٰۃ المصابیح، جلد 2، کتاب النکاح، باب الصداق، الفصل الثانی،صفحہ958،ط:المکتب الاسلامی)