قومی امور انتظامِ سلطنت اور تحفظِ امت میں حکمرانوں کی سیاسی بصیرت اور انتظامی اہلیت زیادہ درکار ہے یا ان کا ذاتی زہد و تقویٰ، زیادہ نظر ان کے ذاتی اعمال پر رہے یا ان کے نظم اور سلطنت پر سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ اور سیدنا معاویہؓ کی رائے اس مسئلہ میں ظاہر ہے کہ انہوں نے یزید کو اس کی کئی کمزوریوں کے باوجود ولی عہد بنانا جائز سمجھا۔ انہوں نے یہ فیصلہ صرف نظریہ ضرورت کے تحت کیا یا اس میں پہلے سے بھی کوئی رہنمائی ملتی ہے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: معاویہالجواب: سیدنا عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں یہ سوال اکابر صحابہؓ کے سامنے رکھا تھا:
ما تقولون فی تولیۃ رجل ضعیف مسلم او رجل قوی مسدد۔
ترجمہ: تمہاری کیا رائے ہے ایک کمزور مسلمان کو والی عہد بنایا جائے یا ایک اچھے قوت رکھنے والے مسلمان کو؟
آپ کا یہ سوال آنے والے وقتوں کے لیے بڑی اہمیت کا حامل تھا، ان موجودہ صحابہؓ میں سیدنا مغیرہ بن شعبہؓ بھی تھے آپ نے یہ جواب دیا:
اما الضعیف المسلم فان اسلامه لنفسه و ضعفه علیک و علی المسلمین و اما القوی المسدد فان سداده لنفسه و قوته لک و للمسلمین۔
(تاریخ کامل ابنِ اثیر جلد3صفحہ 16)
ترجمہ: کمزور مسلمان کا اسلام تو صرف اس کے اپنے لیے ہے اور اس کا ضعف تمہیں اور تمام مسلمانوں کو لے بیٹھے گا اور طاقتور اچھا والی اس طرح ہوگا کہ اس کی اچھائی تو اس کے اپنے لیے رہے گی اور اس کی طاقت آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے ایک بڑی قوت ہوگی۔
سیدنا عمرؓ نے اس جواب سے اختلاف نہیں فرمایا اور اس بصیرت افروز جواب پر ہی آپ نے انہیں ولایت کوفہ سونپی اور موجودہ صحابہؓ میں سے بھی کسی نے اس جواب سے اختلاف نہیں کیا پھر جہاں جہاں یہ بات پہنچی کہیں سے اس کے خلاف کوئی بات سننے میں نہیں آئی، ہم سمجھتے ہیں کہ امورِ سلطنت میں یہ اصول اجماع صحابہؓ سے منظوری پا چکا ہے۔
جب سیدنا عمرؓ کی بھی یہی رائے تھی تو کیا یہ نہیں سمجھا جا سکتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ بھی اسی راہ پر چلے۔ گو یزید میں وہ صفات نہ پائی جاتی تھی جو اسلام میں امامتِ کبریٰ کے لیے اب تک چلی آ رہی تھیں لیکن سلطنتِ اسلامی کو ایک رکھنے کے لیے اموی قیادت نے جو کام کیا شاید کوئی دوسرا نہ کر سکتا۔ ایک صدی بعد بنو عباس اٹھے اور سلطنت اسلامی پھر دو حصوں میں بٹ گئی۔ بنو عباس اسے ایک نہ کر سکے، بنو امیہ نے عبدالرحمٰن کی قیادت میں صدیوں سپین وغیرہ میں اموی پرچم بلند کیے رکھا ہندوستان میں بھی اسلامی قافلے بنو امیہ کے دور میں آئے۔
بنو امیہ کی ان تمام قابلیتوں اور صلاحیتوں کے باوجود عہدِ یزید کے ان دو واقعات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو نواسۂ رسول سیدنا حسینؓ اور سیدنا ابوبکرؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کے خلاف پیش آئے۔ تاہم واقعہ کربلا کی کوئی ذمہ داری سیدنا معاویہؓ پر عائد نہیں ہوتی آپ نے سیدنا حسینؓ کے حق میں یزید کو وصیت کر دی تھی۔
اس سے پہلے حافظ ابنِ کثیرؒ یہ لکھ آئے ہیں:
فبایع له الناس فی سائر الاقالیم الا عبد الرحمٰن بن ابی بکر و عبد اللہ بن عمر و الحسین بن علی و عبد اللہ بن زبیر و ابن عباس۔
ترجمہ: تمام علاقوں کے لوگوں نے اس پر آپ کو عہد دے دیا سوائے ان پانچ کے، عبدالرحمٰن بن ابی بکرؓ، عبداللہ بن عمرؓ، حسین بن علیؓ، عبداللہ بن زبیرؓ اور ابنِ عباسؓ۔
ان میں آخر میں صرف دو رہ گئے جو آخر دم تک مخالف رہے حضورﷺ کے نواسے سیدنا حسین بن علیؓ اور سیدنا ابوبکرؓ کے نواسے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ، سیدنا حسینؓ تو عراق پہنچتے ہی شہید ہو گئے اور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے 12 سال مدینہ منورہ میں خلافت کرنے کے بعد 73ھ میں عبدالملک بن مروان کے عہد میں شہادت پائی۔ واقعہ حرہ انہی کے دور میں پیش آیا۔ واقعہ کربلا کے تین سال بعد یزید کے حکم سے مدینہ پر یہ چڑھائی ہوئی تھی۔