1۔سیدنا حسنؓ کی شہادت کے بعد سیدنا معاویہؓ اور سیدنا حسینؓ کے تعلقات کیسے رہے؟ 2۔ سیدنا معاویہؓ نے یزید کو ولی عہد بنایا اور انہیں اندیشہ رہا کہ سیدنا حسینؓ ان کے خلاف اٹھیں گے تو آپؓ نے ان حالات کو صحیح رخ پر ڈالنے کے لیے کیا کوئی تدبیر فرمائی؟ 3۔ یزید نے خلیفہ بننے کے بعد مدینہ کے ان اکابر کے خلاف جو اس کی خلافت کے حق میں نہ تھے سخت پالیسی اختیار کی یا نرم؟ 4۔ مدینہ کے اس وقت کے گورنر ولید بن عتبہ نے جو یزید کا چچازاد بھائی تھا یزید کی ان ہدایات پر کہاں تک عمل کیا؟
سوال پوچھنے والے کا نام: حیدرالجواب:
1۔سیدنا حسینؓ گو اس صلح سے خوش نہ تھے جو سیدنا حسنؓ نے اتحادِ امت کے لیے سیدنا معاویہؓ سے کی لیکن چونکہ آپ سیدنا حسنؓ کو خلیفہ مانے ہوئے تھے اس لیے اطاعت اولی الامر کی رو سے آپ نے بھی اس اتحاد میں شامل ہونا واجب جانا اور آپ اپنے بھائی سیدنا حسنؓ کے ساتھ ہر سال سیدنا معاویہؓ کے پاس آتے رہے اور ان کے تحائف و وظائف قبول کرتے رہے۔ سیدنا حسنؓ کی وفات کے بعد بھی آپؓ نے سیدنا معاویہؓ سے اپنے تعلقات قائم رکھے اور ان سے مقرر کردہ وظائف لیتے رہے، حجر بن عدی جیسے بہت سے لوگوں نے آپ کو نقضِ بیعتِ معاویہؓ پر اکسایا۔ لیکن آپ نے سیدنا معاویہؓ سے اپنی بیعت اور وفا کو قائم رکھا۔
2۔ سیدنا معاویہؓ کی وفات جب قریب آلگی تو آپ نے اپنے ولی عہد یزید کو سیدنا حسینؓ کے بارے میں جو وصیت کی اس کے الفاظ یہ ہیں:
ترجمہ: جہاں تک حسین بن علیؓ کا تعلق ہے وہ ذرا جذباتی ہیں اور میرا خیال ہے کہ (عراق کے) جن لوگوں نے ان کے والد(سیدنا علیؓ) کو قتل کیا اور ان کے بھائی (سیدنا حسنؓ) سے وفا نہ کی، انہیں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تمہاری طرف سے ان کو کافی ہو جائے گا۔ اور یاد رکھنا کہ ان کا (ہم پر) بہت بڑا حق ہے اور ان کی حضورﷺ سے قرابت ہے، میں نہیں سمجھتا کہ اہلِ عراق انہیں میدان میں لائے بغیر چھوڑیں گے اور اگر ایسا ہو اور تم ان پر قابو پا لو تو درگزر کرنا، اگر میرے اور ان کے درمیان کوئی ایسی صورت پیش آتی تو میں درگزر ہی کرتا۔
(طبری جلد 6، صفحہ 180)
3۔ تاریخ طبری میں تو یہ ہے کہ یزید نے گورنر مدینہ کو لکھا:
اما بعد فخذ حسينا و عبد الله بن عمر و عبد الله بن الزبير بالبيعة اخذا شديدا ليست فيه رخصة حتى يبايعوا۔
(ایضاً)
ترجمہ: سیدنا حسینؓ، سیدنا عبد الله بن عمرؓ، سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کو بیعت کے لیے گرفتار کر لینا۔ اس میں کوئی نرمی نہ برتیں، یہاں تک کہ یہ سب لوگ تیری بیعت کر لیں۔
لیکن حافظ ابنِ کثیرؒ محمد بن سعد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ یزید نے اپنے گورنر مدینہ کو لکھا:
ترجمہ: وہاں کے لوگوں سے بیعت لیں اور ابتداء قریش کے بڑے لوگوں سے کریں۔ اور ان میں بھی سیدنا حسین بن علیؓ کو مقدم رکھیں۔ مجھے والد مرحوم نے ان سے خصوصی طور پر نرمی کے برتاؤ کی وصیت کی ہے۔
(البدایہ جلد 8، صفحہ 163)
دونوں میں سے کون سی روایت صحیح ہے۔ اس کی تصدیق گورنر مدینہ کے عمل سے ہوتی ہے، ولید نے جب سیدنا حسینؓ کو بلایا تو اس نے آپ سے سخت کلامی کی، سیدنا حسینؓ نے بھی اسے خوب سنائیں اور اس کی پگڑی کھینچی۔ مدینہ کا پہلا گورنر مروان بھی وہیں تھا اس نے ولید کو انہیں قتل کرنے کا کہا، مگر ولید نے کہا:
ان ذلك لدم مضنون به مضنون فى بني عبد مناف
(البدایہ جلد 8، صفحہ 163)
ترجمہ: عبد مناف کا یہ خون بڑا قیمتی ہے اور اسے حفاظت دی گئی ہے۔
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ابنِ کثیرؒ کی روایت زیادہ صحیح ہے۔ ورنہ ولید بن عتبہ کبھی نہ کہتے کہ انہیں (سیدنا حسینؓ کو) جان کی حفاظت دی جا چکی ہے۔
ولید بن عتبہ نے یہ بھی کہا:
يا مروان انك قد اخترت لى التي فيها هلاك ديني۔ والله ما احب ان لى ما طلعت عليه الشمس وغربت عنه من مال الدنيا وملكها والى قتلت حسينا. سبحان الله اقتل حسينا ان قال لا ابايع والله الى لاظن ان امل یحاسب بدم الحسين لخفيف الميزان عند الله يوم القيٰمة۔
(طبری جلد 6، صفحہ 190)
ترجمہ: اے مروان! تم نے مجھے وہ راہ سمجھائی جس میں میرے دین کی بربادی ہے۔ بخدا میں نہیں پسند کرتا کہ میرے لیے پوری دنیا جس پر سورج طلوع ہوتا ہے اور غروب ہوتا ہے کا حال ہو اور اس نے سیدنا حسینؓ کو قتل کیا ہو۔ یہ کبھی نہیں ہو سکتا کہ میں سیدنا حسینؓ کو اگر اس نے کہا میں بیعت نہیں کرتا قتل کروں،خدا کی قسم میرا گمان ہے کہ جو شخص قیامت کے دن خونِ حسینؓ کا یہ حساب دے وہ اللہ کے ہاں بہت ہلکے پلڑے والا ہوگا۔
پھر اس بات پر غور کر لینا چاہیے کہ سیدنا حسینؓ جب مدینہ سے مکہ کے لیے نکلے تو آپ نے یہ سفر معروف رستے سے اختیار فرمایا، آپ کے ساتھ آپ کے گھر کے لوگ بھی تھے۔ اگر گورنر مدینہ ان کا تعاقب کرتا تو وہ انہیں رستے میں روک لیتا، یہاں تک کہ آپ مکہ مکرمہ آگئے اور وہاں کئی مہینے رہے۔ وہاں بھی حکومت کی طرف سے ان کے خلاف کوئی کاروائی کی گئی نہ گورنر مکہ کو کوئی حکم ملا کہ انہیں گرفتار کر لو۔ یہ صورتِ حال بتاتی ہے کہ یزید پر اپنے والد کی نصیحت کا کچھ اثر ضرور تھا جب اہلِ عراق ان کو حکومت کے مقابلہ پر ہی لے آئے اور آپ مکہ سے کوفہ پہنچے تو ان بدلے حالات میں حکومت کی پالیسی وہ پہلی نہ رہی، اگر یزید اس اگلے مرحلے میں بھی سیدنا معاویہؓ کی وصیت پر عمل پیرا ہوتا تو خود عراق میں انہیں آ ملتا۔ آپ کو ابنِ زیاد کے سپرد نہ کیا جاتا۔ زیاد خود بھی یزید کی ولی عہدی کے خلاف تھا۔ اب اس کا بیٹا کیسے برداشت کر سکتا تھا کہ یزید کی حکومت نیک نامی سے چلے اس نے وہاں ایک ایسا کردار ادا کیا کہ دنیا اب تک یزید کو معاف نہیں کر سکی۔
یاد رہے کہ سیدنا معاویہؓ کی وفات رجب 60ھ میں ہوئی اور کربلا کا واقعہ61ھ میں پیش آیا۔ یہ چھ مہینے سیدنا حسینؓ کے بلا بیعت گزرے تھے۔ اگر اہلِ عراق آپ کو علیحدگی پر نہ اُکساتے تو شاید تاریخ کا رخ کچھ اور ہوتا۔ سیدنا حسینؓ نے اپنے پورے سفر میں اور پھر عراق آ کر بھی یزید پر کوئی ذاتی اعتراضات نہ اُٹھائے، آپ صرف اس اصول پر ڈٹے ہوئے تھے کہ خلیفہ کے تقرر میں وہ پہلا معیار کیوں باقی نہیں رہا جس پر خلفائے راشدینؓ کا تقرر عمل میں آتا رہا۔ سیدنا معاویہؓ بھی کسی حد تک ان صفات کریمہ کے حامل تھے، خلیفہ کی تقرری میں نظریہ ضرورت کے تحت اب جو انحطاط آرہا تھا آپ نے اسے گوارا نہ کیا۔ آپ نے اپنے اجتہاد سے عزیمت کی جو راہ اختیار کی اس میں آپ یقیناً اللہ تعالیٰ کے لیے سرخرو رہے اور جن حضرات نے ناپسندیدگی کے باوجود یزید کے اقتدار کو تسلیم کر لیا ان کے لیے اس رخصت پر عمل کرنے کی راہ پوری وسعت سے کھلی تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ امت کا پرچم ایک رہا اور وہ پھر سے دو ٹکڑوں میں تقسیم ہونے سے بچی رہی۔