سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کس سیاسی بصیرت کے آدمی تھے ان کا خلافت کے لیے آگے نہ بڑھنا کیا اس لیے تو نہ تھا کہ وہ سیاسی بصیرت نہ رکھتے تھے اور سیدنا عمرفاروقؓ نہ چاہتے تھے کہ سلطنت کسی کمزور ولی کے سپرد ہو؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ارمجواب: ایسا نہیں، اگر سیدنا عمرفاروقؓ انہیں سیاسی بصیرت میں کسی درجے میں کمزور سمجھتے تو صحابہؓ کو یہ نہ فرماتے کر تم ان سے مشورہ بے شک لے لیا کرو، پھر ان کی سیاسی بصیرت اور روشن دماغی کی شہادت وقت کی دو عظیم سیاسی شخصیتوں سے بھی ملتی ہے،
1:سیدنا عمرو بن عاصؓ فاتحِ مصر سے جن کی سیاسی عبقربت سے کبھی کسی کو انکار نہیں ہوا،
2: سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ سے جو مختلف صوبوں میں کئی بار گورنر رہے اور جنگِ صفین کے بعد وہ سیدنا علیؓ کی طرف سے مجلسِ مصالحت میں حَکَم تھے یہ دونوں حضرات جب سیدنا معاویہؓ اور سیدنا علیؓ کے حَکموں کے طور پر مقام اذرح میں جمع ہوئے تو دونوں نے باہمی مشورہ سے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کو بھی شریکِ مجلس کرنے کے لیے بلا بھیجا۔
امام ابو حنیفہؒ کے حدیث کے شاگرد امام عبدالرزاقؒ (211ھ) روایت کرتے ہیں:
ارسل الحكمان إلى عبد الله بن عمر و عبد اللهؓ بن الزبيرؓ
(المصنف عبد الرزاق جلد 5،صفحہ 463:تاریخ طبری جلد6 صفحہ 33)
ترجمہ: ان دو حَکموں نے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو بھی بلا بھیجا۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ حضرات بلند پایۂ سیاسی بصیرت رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ سیدنا عمرو بن عاصؓ جیسے عظیم فاتح بھی ان کے مشورے اور ان کی سیاسی بصیرت کے قائل رہے اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ نے تو ان کا نام بطورِ خلیفہ پیش کیا تھا۔بشرطیکہ سیدنا علیؓ خلافت سے دستبردار ہو جائیں آپ خود اندازہ کریں کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کس قدر اعلیٰ درجہ کی سیاسی بصیرت کے مالک ہوں گے۔ کاش کہ سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ فیصلے میں یہ شرط بھی لگاتے کہ سیدنا معاویہؓ بھی شام کی گورنری سے دستبردار ہوں۔ انہوں نے سیدنا معاویہؓ کے خلیفہ نہ ہونے کا اقرار کر لیا اور ظاہر ہے کہ وہ تو خلافت کے مدعی ہی نہ تھے کہ انہیں سیدنا عمرو بن عاصؓ خلافت سے دستبردار کرتے وہ جس عہدے پر تھے اسے مجلسِ مصالحت میں چھیڑا تک نہ گیا۔