Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا یہ صحیح ہے کہ سیدنا معاویہؓ اپنے آپ کو سیدنا عمرؓ سے بھی زیادہ مستحقِ اقتدار سمجھتے تھے، صحیح بخاری میں ہے کہ جب سیدنا معاویہؓ اور سیدنا علیؓ کے حکم سیدنا عمرو بن عاصؓ اور سیدنا ابو موسیٰ اشعریؓ اذرح سے چلے گئے اور سیدنا معاویہؓ نے اپنے آپ کو حکمین سے آزاد پایا تو دمشق میں ایک خطبہ دیا۔من كان يريد ان يتكلم في هذا الامر فليطلع لنا قرنه فلنحن احق به ومن ابيه(صحیح بخاری جلد4)ترجمہ: جو شخص چاہتا ہے کہ اس معاملہ میں بات کرے وہ ہمیں اپنا سینگ دکھائے ہم اس کے بلکہ اس کے باپ سے بھی اس بات کے زیادہ حقدار ہیں۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ اپنے آپ کو نہ صرف سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ سے بلکہ سیدنا عمرؓ سے بھی زیادہ مستحقِ اقتدار سمجھتے تھے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   حیدر

جواب: سیدنا معاویہؓ تو اپنے آپ کو سیدنا عثمانؓ سے بھی درجے میں تھوڑا سمجھتے تھے چہ جائیکہ وہ سیدنا عمرؓ سے اپنے آپ کو بڑا سمجھیں سیدنا سعید بن عثمانؓ نے ایک دفعہ سیدنا معاویہؓ سے اس طرح بات کی کہ گویا آپ اپنے آپ کو سیدنا معاویہؓ کے بعد سب سے زیادہ مستحقِ خلافت سمجھتے ہیں، اس پر سیدنا معاویہؓ نے انہیں جو جواب دیا وہ غور کے لائق ہے۔

سیدنا سعید بن عثمانؓ نے سیدنا معاویہؓ سے کہا تم جو کچھ ہوئے میرے باپ کی وجہ سے ہوئے اس پر سیدنا معاویہؓ نے کہا!

بے شک تمہارے والد کے احسانات کا انکار نہیں ہو سکتا اور تمہارا باپ بیشک یزید کے باپ سے بڑھ کر تھا تمہاری ماں بھی یزید کی ماں سے بڑھ کر ہے کہ وہ قریش میں سے ہے اور یزید کی ماں بنی کلب سے تھی لیکن تم جو اپنے بارے میں سمجھتے ہو تو سنو،الخ

اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ کا یہ ہرگز دعویٰ نہ تھا کہ وہ کسی طرح سیدنا عثمانؓ سے آگے ہیں۔ اب یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ کسی پیرائے میں اپنے آپ کو سیدنا عمرؓ سے بھی زیادہ مستحقِ خلافت سمجھتے ہوں۔سو ہو سکتا ہے کہ صحیح بخاری کی روایت فلن عن احق به ومن ابیہ میں ضمیریں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کی طرف اور ان کے باپ کی طرف نہ ہو سیدنا حسنؓ کی طرف ہو جن کے بارے میں بعض حلقوں میں سمجھا جا رہا تھا کہ سیدنا علیؓ کی جگہ وہ سریر آرائے خلافت ہوں گے۔

اس کی تائید یزید کے اس خطبہ میں پائی جاتی ہے جو اس نے اپنے باپ کی وفات پر دیا، اس نے اس خطبہ میں کہا:

ايها الناس ان معاويه كان عبداً من عبيد الله انعم الله عليه ثمر قبضہ اليه وهو خير ممن بعده و دون من قبله ولا ازكيه على الله من رجل خانه اعلم به ان عفا عنه فبرحمته وان عاقبه فبذنبه وقد وليت الامر من بعده

(البدایہ جلد8 صفحہ 143)

ترجمہ: اے لوگو! معاویہؓ اللہ کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس پر انعام کیا (کہ اُمتِ محمدیہﷺ کی اس سے خدمت لی)، پھر اس نے اسے وفات دی، وہ اپنے بعد والوں سے بہتر تھا اور اپنے پہلوں سے (سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ سے) درجے میں کم تھا، میں اللہ کے حضور اس کی پاکبازی پر گواہی نہیں دے رہا کیونکہ وہ اسے (مجھ سے) بہتر جانتا ہے، اگر وہ اسے معاف کر دے تو یہ اس کی رحمت سے ہوگا اور اگر وہ اسے پکڑے تو یہ اس کے گناہ کے باعث ہوگا اس کے بعد ولایت سلطنت مجھے دی گئی ہے میں اس ذمہ داری پر کھڑا کیا گیا ہوں۔

اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ نے بھی کبھی اپنے آپ کو اپنے پہلوں سے افضل اور فائق نہ جانا ہوگا، کہاں وہ اور کہاں سیدنا عمرؓ پھر سیدنا معاویہؓ کے تدبر و فراست اور علم و بصیرت سے بھی یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ آپ اپنے آپ کو سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اور ان کے باپ سے کسی پیرایہ میں زیادہ مستحقِ خلافت جانیں، سیدنا عمرؓ کی پیروی کا حکم تو خود رسول اللہﷺ امت کو دے گئے تھے، سیدنا ابو بکرؓ اور سیدنا عمرؓ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے بعد ان کی اقتداء کرنا۔

عن حذيفةؓ قال قال رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم انی لا ادری ما بقائي فيكم فاقتدوا بالذين من بعدى ابی بكر و عمر(رواہ الترمذی)

(مشکوٰۃ صفحہ 560)

 ترجمہ: میں نہیں جانتا مجھے تم میں کسی قدر باقی رہنا ہے، سو تم میرے بعد سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ کی پیروی کرنا۔

یہ بات حضور اکرمﷺ نے سربراہِ مملکت ہونے کی حیثیت سے کہی تھی۔کیونکہ آپﷺ کی نبوت کا تعلق آپ کی موجودگی یا عدم موجودگی سے نہ تھا۔ آپ اپنے بعد کے لیے بھی ہر مؤمن کے لیے پیغمبر اور واجب الاطاعت ہیں، ہاں سربراہِ مملکت آپ کے بعد دوسرے ہوں گے اور ان کی آپ نے نشاندہی کر دی۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے یہ بات کب کہی تھی؟

آپ نے جو یہ انا بايعنا هذا الرجل۔ کہا تو آپ کا یہ جملہ ترغیب بیعت یا وجہ بیعت بیان کرنے کے لیے نہ تھا۔ اب خلع بیعت کی بات چل رہی تھی۔ آپ کا مرتبہ کلام اس موضوع پر تھا کہ تم جو بیعت کرچکے ہو اب ان خبروں کی وجہ سے جو تمہیں یزید کے بارے میں مل رہی ہیں تم اس بیعت سے نہ نکلو، ان وجوہ سے شرعاً نقضِ بیعت کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔

 یزید نے برسرِ اقتدار آنے کے بعد اپنے چچازاد بھائی عثمان کو مدینہ کا امیر مقرر کیا۔ عثمان نے کچھ لوگ شام یزید کو ملنے کے لیے بھیجے، انہوں نے مدینہ واپس آ کر یزید کے بارے میں کچھ اچھے تاثرات نہ دیئے اور وہ عثمان بن محمد بن ابی سفیان پر چڑھ دوڑے اسے امارت سے اتار دیا۔ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اس موقعہ پر اپنے خواص احباب اور اپنے بیٹوں کو ایک جگہ جمع کیا اور انہیں اس میں یہ بات کہی، امام بخاری روایت کرتے ہیں:

لما خلع اهل المدينة يزيد بن معاوية جمع ابن عمر حشمه وولده فقال انى سمعت رسول اللهﷺ لقول ينصب لكل غادر لواء يوم القيٰمة وانا قد بايعنا هٰذا الرجل على بيع الله ورسوله

(صحیح بخاری جلد 2صفحہ1053)

ترجمہ: جب اہلِ مدینہ نے یزید بن معاویہ سے علیحدگی اختیار کر لی(اسے امیر ماننے سے انکار کر دیا) تو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے پیروں اور اپنے بیٹوں کو جمع کیا اور کہا میں حضورﷺ کو کہتے سنا ہے ہر عہد توڑنے والے کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا نصب کیا جائے گا سن لو ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسولﷺ کی بیعت کو قائم رکھتے ہوئے کی ہے۔

اس سے پتہ چلتا ہے کہ یزید کی بیعتِ عامہ کے بعد مدینہ جو اس وقت خیر بقاع الارض تھا، اس میں یزید کے خلاف نقضّ بیعت کی تحریک اٹھی تھی، حافظ ابنِ حجرؒ نے اسے فتح الباری میں نقل کیا ہے۔ اس میں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کا مؤقف یہ تھا کہ شرعاً ان اطلاعات سے نقضِ بیعت کا جواز نہیں نکلتا، جب تک حکمران کفر پر نہ آ جائے۔ اس کے خلاف لشکر کشی جائز نہیں ہے۔ حضور اکرمﷺ سے ایسے حکمرانوں کے خلاف نکلنے کے لیے پو چھا گیا تو آپ نے یہی فرمایا تھا:

افلا تقاتلهم به قال ما صلوا(رواہ الترمذی جلد 2صفحہ 128لکھنو)الا ان تروا كفرا بواحا عندكم من الله برهان

(سنن ابی داؤد)

یہ صورت حال بتاتی ہے کہ اپنے اس مشورہ میں یزید کی کوئی فضیلت بیان نہیں کر رہے تھے۔ آپ یہاں اسے رجل کہہ کر ذکر کر رہے ہیں۔ آپ نے یہ نہیں کہا، بایعنا امیر المؤمنين بلکہ فرمایا بایعنا هذا الرجل بيع الله ورسوله امر کو عام رجل کہہ کر ذکر کرنا اس بات کا پتہ دیتا ہے کہ آپ کی اس سے بیعت اس کی کسی فضیلت یا اس سے کسی عقیدت کی وجہ سے نہ تھی حضور اکرمﷺ کی امت کو محض فتنہ سے بچانے کے لیے تھی، ورنہ کہاں سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اور کہاں یزید هذا ما ذهب اليه الشافی۔

یہ بات یہاں کھل گئی کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ ارشاد یزید کی بیعت کے لیے نہ تھا۔ مدینہ میں اس کی بیعت عام ہو چکی تھی۔ اب نئی خبروں کے زیرِ اثر اس کی بیعت توڑنے کی بات موضوع سخن تھی، حافظ ابنِ حجرؒ لکھتے ہیں: 

وفي هذا الحديث وجوب طاعة الامام الذي انعقدت له البيعة والمنع من الخروج عليه ولو جار في حكمه وانه لا ينخلع بالفسق

 ترجمہ: اس حدیث میں کسی امام کی بیعت ہونے پر اس کی اطاعت کا وجوب نکلتا ہے اور اس پر خروج کرنے سے منع کیا گیا ہے اگر چہ وہ اپنے فیصلوں میں ظلم کرتا ہو اور اس سے بھی منع کیا گیا ہے کہ وہ فسق سے خلافت سے نکل جاتا ہے۔

سو سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ کے نقضِ بیعت سے منع کرنے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اپنی بیعت میں اسے امام عادل سمجھتے تھے۔ پہلے آپ بھی انہی لوگوں میں سے تھے جو اس کی بیعت سے کنارہ کش رہے۔

ابتداء میں مدینہ منورہ میں سیدنا عبد الرحمٰن بن ابی بکرؓ، سیدنا عبد الله بن عمرؓ، سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ، سیدنا حسین بن علیؓ اور سیدنا عبد اللہ بن عباسؓ سبھی حضرات یزید کو پسند کرنے والوں میں سے نہ تھے۔ حافظ ابنِ کثیرؒ لکھتے ہیں:

فبايع له الناس في سائر الاقاليم الا عبد الرحمٰن بن ابي بكر و عبد الله بن عمر و الحسين بن على وعبد الله بن الزبير وابن عباس

(البدایہ جلد8 صفحہ 86)

 دیکھیے آپ کو سیدنا عبداللہ بن عمرؓ ابتداء میں کہاں کھڑے نظر آتے ہیں؟

 جواب: سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ، سیدنا عبد اللہ بن عبدالرحمٰنؓ اور سیدنا حسینؓ کے ساتھ رہے۔ پھر جب آپ کی رائے یہ ٹھہری کہ عدم بیعت سے امن عامہ خطرے میں پڑ جائے گا تو اس بیعت کو اگر مجبوری کی بیعت نہ کہا جائے تو کیا ہم اسے رضا و رغبت کی بیعت کہہ سکتے ہیں؟ جواب یقیناً نفی میں ہو گا ورنہ تاریخ اس کا جواب نہ دے سکے گی کہ پہلے آپ اسکی بیعت سے کیوں کنارہ کش رہے تھے۔ مدینہ والوں کو بھی پہلے یزید کے بارے میں پوری معلومات نہ تھی۔

محدث کبیر احمد علی سہارنپوریؒ صحیح بخاری کے حاشیہ پر علامہ طبریؒ اور محدث قسطلانیؒ سے نقل کرتے ہیں:

فاوفد الى يزيد جماعة من اهل المدينة فاكرمهم و اجازهم فرجعوا فاظهروا عيبه ونسبره الىٰ شرب الخمر و غير ذٰلك ثم وثبوا على عثمان فاخرجوه وخلعوا يزيد بن معاوية۔

(صحیح بخاری جلد2 صفحہ 1053)

ترجمہ: اس نے اہلِ مدینہ کا ایک وفد یزید کے پاس بھیجا،اس نے ان کی بہت عزت کی اور انہیں ہدیے دیئے وہ واپس آئے تو انہوں نے اس کے کچھ عیب بتائے اور اسے شراب پینے والا کہا پھر وہ عثمان(امیرِ مدینہ) پر ٹوٹ پڑے اور اسے اس عہدے سے نکال دیا۔

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مدینہ والے بعد میں یزید کے خلاف ہو گئے تھے اب اس موقع پر سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کا اجتہاد یہ تھا کہ اب یزید کے خلاف اٹھنے میں فتنہ دور تک جا بڑھے گا ان کا سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو دعویٰ خلافت سے روکنا بھی اسی لیے تھا کہ اس میں وسیع پیمانے پر خونریزی ہوگی۔ سو اب یہ بحث بیعتِ یزید پر نہ تھی خلع یزید پر تھی کہ کیا یہ اس صورت میں اب جائز ہے۔

محدث شہیر ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں:

ولا شك انهم كانوا خائفين من نحو يزيد وحجاج بن يوسف ولم يكن يتمشى الخروج حينئذ على ارباب العناد بل كان بيترتب اليه امور من النساء و لذا كان ابنِ عمر يمنع ابنِ الزبير وينهاه عن دعوىٰ الخلافة مع انه كان احق واولىٰ بها من امراء الجور بلاخلاف۔

(شرح فقہ اکبر صفحہ181)

ترجمہ: اس میں شک نہیں کہ اہلِ مدینہ یزید اور حجاج بن یوسف جیسے حکمرانوں سے بہت اندیشناک تھے اور اس میں غلط رو لوگوں کے خلاف خروج کی کوئی راہ نہ نکلتی تھی بلکہ اس پر اور کئی قسم کے فتنے مرتب ہوتے تھے اور اسی لیے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو متوازی دعویٰ خلافت سے روکتے تھے حالانکہ سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ بالاتفاق ان ظالم حکرانوں سے ولایتِ عامہ کے زیادہ حقدار تھے۔

اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کی اس وقت اجتہادی رائے وہی تھی جو سیدنا زین العابدینؓ نے سانحۂ کربلا کے بعد اختیار کی کہ اب یزید کے خلاف نکلنا امت کو ایک بڑے خطرے میں ڈال دے گا۔

علامہ ابنِ خلدون (808ھ) لکھتے ہیں:

وما حدث في يزيد ما حدث من الفسق اختلف الصحابة حينئذ في شأنه منهم من راعي الخروج عليه ونقض البيعة البيعة من اجل ذلك كما فعل الحسين وعبد الله ابن الزبير و من تبعها في ذلك ومنهم من اباه لما فيه من اثارة الفتنة وكثرة العجز عن الوفاء به۔

(مقدمہ ابنِ خلدون صفحہ 177)

ترجمہ: اور اب یزید میں جو فسق کے حالات پیدا ہوئے اس میں صحابہؓ کی اسکے بارے میں دو رائے ہوئیں ان میں ایسے بھی تھے جو ان وجوہ سے اس پر خروج کر لے اور اسکی بعیت توڑنے کے حق میں تھے جیسا کہ سیدنا حسینؓ نے سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ نے اور انکے ساتھیوں نے کیا اور ان میں ایسے بھی تھے جنہوں نے اس خروج سے انکار کیا کیونکہ اس میں ایک اور فتنہ اٹھتا تھا اور اس پر پورا اترنے سے (لوگوں میں) عام کمزوری نظر آتی تھی۔

تاہم صحابہؓ کے ان دونوں حلقوں میں یزید کا مدح خواں کوئی نہیں ملتا۔

صحابہ کرامؓ کی نظر میں یزید کیا کوئی پسندیدہ امیر تھا

اس میں شک نہیں کہ یزید ایک امیرانہ ماحول میں پرورش پانے والا آزاد روش نوجوان تھا۔ کسی سلطنت کے مرکزی عہدیدار کے لیے جو پختگی اور تدبر درکار ہوتا ہے وہ اس میں نہ تھا، سیدنا امیرِ معاویہؓ نے اسے بہت نصیحتوں کے ساتھ نامزد کیا تھا۔ انہیں امید تھی کہ وہ نصائح پر کار بند ہو کر رہے گا سیدنا حسینؓ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ کی رائے تھی کہ وہ ایک نو آموز اور آزاد رو نوجوان ہے مروت سے خالی ہے۔

سیدنا حسینؓ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ (حضور اکرمﷺ کے نواسے اور سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے نواسے) دونوں صحابیؓ ہیں ان کی رائے یزید کے بارے میں کیا تھی؟حافظ ابنِ کثیرؒ نے اسے نقل کیا ہے:

یزید نے حکومت سنبھالتے ہی والیٔ مدینہ کو لکھا کہ وہ اہلِ مدینہ سے اس کے لیے بیعت لے۔ اس وقت ان دو صحابیوںؓ نے یزید کے بارے میں اپنی یہ رائے دی تھی 

هو يزيد الذی تعرف والله ما حدث له عزم ولا مروة۔

(البدایہ والنہایہ جلد:8 صحفہ162)

ترجمہ: یہ وہی یزید ہے جو ہمارا جانا پہچانا ہے۔ اللہ کی قسم اس میں کوئی پختگی پیدا نہیں ہوئی اور نہ اس میں مروت کا کوئی احساس نظر آتا ہے۔

سیدنا حسینؓ اور سیدنا عبد اللہ بن زبیرؓ نے اس صورتِ حال میں اسے لائقِ بیعت نہ جانا، اگر وہ اس وقت شراب نوشی کرنے والا اور کھلے طور پر کبائر کا مرتکب ہوتا تو سیدنا حسینؓ اس اہم موقعہ پر اس کی وہ برائیاں ضرور سامنے لاتے۔ سیدنا حسینؓ اور سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے بڑھ کر کوئی یزید کو زیادہ پہچاننے والا نہیں ہو سکتا۔

اگر اس میں کچھ بھی مروت کا احساس ہوتا تو وہ سیدنا حسینؓ سے ملنے کے لیے خود عراق جاتا عبیداللہ بن زیاد کو نہ بھیجتا۔اس نے سیدنا حسینؓ کی قدر و منزلت کا کچھ احساس نہ کیا اور ابنِ زیاد جیسے ظالم کو وہاں گورنر بنا کر بھیج دیا۔

قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ لکھتے ہیں کہ یزید کے کربلا میں پیدا ہو نے والے حالات کے باعث فاسق ہوا یہاں تک کہ مدینہ کے جو لوگ اس سے بیعت کر چکے تھے وہ بھی نقض بیعت پر تل گئے ماسوائے سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے۔ ان کا خیال تھا کہ اب اس کے مقابلہ میں زیادہ خونریزی ہو گی اس سے امت کو بچانا ضروری ہے۔ سیدنا زین العابدینؓ کی بھی آخر یہی رائے تھی۔ تاہم یہ نہیں کہ سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے دل میں اس کا کوئی احترام ہو۔ حضرت مولانا گنگوہیؒ لکھتے ہیں:

کسی مسلمان کو کافر کہنا مناسب نہیں یزید مومن تھا بسبب قتل (سیدنا حسینؓ) کے فاسق ہوا کفر کا حال دریافت نہیں، کافر کہنا جائز نہیں کہ وہ عقیدۂ قلب پر موقوف ہے۔

(فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 38)

صحابی رسولﷺ سیدنا مسور بن مخرمہؓ کی رائے

سیدنا مسور بن مخرمہؓ صحابی رسولﷺ ہیں، آپ سیدنا عبد الرحمٰن بن عوفؓ کے بھانجے تھے، سیدنا عبداللہ بن عباسؓ کے اقران میں سے تھے۔ بچپن کے باوجود جنگِ حنین میں حاضر تھے یزید کے بارے میں ان کی رائے ملاحظہ ہو۔ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ (1052ھ) لکھتے ہیں:

نکرده داشت بیعت یزید تا آنکه فرستادیزید لشکرے را به مکه و محاصره کرد آن را پس رسید مسور را حجرے از احجار منجنیق دوے نمازے کرد پس کشته شد رضی الله عنه

(اشعتہ اللمعات جلد 1صفحہ 454)

ترجمہ: سیدنا مسورؓ، یزید کی بیعت کرنا پسندیدہ نہ سمجھتے تھے یزید نے ان پر حملہ کر نے کے لیے ایک لشکر بھیجا اس نے مکہ کا محاصرہ کیا۔ سیدنا مسورؓ کو منجنیق سے چلا پتھر لگا اور وہ بحالتِ نماز مارے گئے۔ اللہ ان سے راضی ہو چکا۔

سیدنا عبداللہ بن عمرؓ نے بھی عام خونریزی سے بچنے کے لیے لوگوں کو نقضِ بیعت سے منع کیا تھا تاہم انہوں نے اس کی بیعت کا اظہار اس کے لیے کسی باعزت پیرائے میں نہیں کیا آپ نے اسے عام لوگوں کی طرح ذکر کیا۔ یہ نہیں کہا بايعنا امير المؤمنين، بلکہ فرمایا، بایعنا هذا الرجل علی بیع اللہ و رسولہ کہ ہم نے اس شخص کی بیعت اللہ اور اس کے رسول کی بیعت کو قائم رکھتے ہوئے کی ہے، یعنی اس شخص کا کوئی حکم جو اللہ اور اس کے رسولﷺ کے خلاف ہوگا ہم نہیں مانیں گے۔

پھر صحیح بخاری سے پتہ چلتا ہے کہ سانحہ کربلا میں آپ کی ہمدردی سیدنا حسینؓ کے ساتھ ہی رہی تھی۔ البتہ آپ نقضِ بیعت کے خلاف تھے۔ آپ کا فقہی مؤقف یہ تھا کہ امیر اپنے فسق سے امارت سے منعزل نہیں ہوتا۔ ہاں اگر کوئی کفر کے کنارے آ لگے تو اس کا عزل واجب ہو جاتا ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت یزید کے خلاف تحلیل خمر کوئی الزام نہ تھا کیونکہ تحلیلِ حرام بالاتفاقِ کفر ہے۔ اس صورت میں سب مسلمان اس کے خلاف نکل آتے۔

یزید پر جرح کرتے سیدنا معاویہؓ کی ہر بے ادبی سے بچا جائے

سیدنا معاویہؓ صحابی رسولﷺ ہیں آپ کی اسلام میں بہت خدمات ہیں اور آپ سالہا سیدنا عمرؓ اور سیدنا عثمانؓ کی آنکھوں کا تارا رہے سو اس میں احتیاط درکار ہے کہ یزید کی وجہ سے کہیں آپ کا دامن گرد آلود نہ ہو پائے، سب اہلِ سنت کا عقیدہ ہے کہ خلفاء راشدینؓ میں چوتھے خلیفہ سیدنا علیؓ ہیں، سیدنا معاویہؓ نے ان کی خلافت کو تسلیم نہ کیا لیکن اس میں اہلِ سنت کا محتاط مؤقف یہی رہا ہے کہ ان مشاجرات میں سیدنا معاویہؓ کو برا بھلا کہنے کی بجائے اسے یوں کہا جائے کہ ان میں اولیٰ بالحق سیدنا علیؓ تھے یعنی نیت دونوں کی درست تھی منزل دونوں کی حق تھی سیدنا علیؓ حق کے زیادہ قریب تھے۔ دوسری طرف باطل کا لفظ بولنے میں احتیاط کی جائے۔ اسے خلاف اولیٰ کہنے سے بات واضح ہو جاتی ہے۔

آپ کے لیے یہ اولیٰ بالحق کی تعبیر خود لسان رسالت ﷺ سے ثابت ہے۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہؓ بھی حق پر تھے لیکن اجتہاد کی راہ سے اولیٰ بالحق سیدنا علیؓ تھے اسی میں زیادہ احتیاط ہے سیدنا ابوسعید الخدریؓ (74ھ) بیان کرتے ہیں حضورﷺ نے فرمایا:

 يكون في امتى فریقين فيخرج من بينهما مارقة یلى قتلها أولٰهما بالحق رواه مسلم۔

(مشکوٰة صفحہ:307)

 ترجمہ: میری امت (سیاسی طور پر) دو حصوں میں بٹ جائے گی۔ ان دونوں کے درمیان ایک تیسرا فرقہ نکلے گا اس تیسرے فرقے مارقہ کے قتل کے درپے جو ان دو جماعتوں میں سے نکلے گا وہ اپنے اختلاف میں حق کے زیادہ قریب ہو گا، اولٰهما بالحق۔

دیکھیے حضورﷺ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے حامیوں کو باطل پر کہنے کی بجائے سیدنا علیؓ کو اولیٰ بالحق فرمایا ہے یعنی اصولاً دونوں حق پر ہوں گے لیکن ان میں زیادہ ایک حق پر ہو گا اور ظاہر ہے کہ وہ سیدنا علیؓ تھے جو خوارج سے لڑے۔

یہ وہی فرق ہے جو اجتہاد میں خطاء کرنے والے کو ایک اجر کا مستحق ٹھہراتا ہے اور مجتہد مصیب کو دو اجر دلواتا ہے۔ اس سے صاف سمجھا جاتا ہے کہ اصولاً دونوں حق پر ہوتے ہیں۔ ایک ایک اجر کا مستحق ٹھہرتا ہے اور اولیٰ بالحق کو دو اجر ملتے ہیں۔

امام ابن خلدونؒ بھی اس پر اپنا فیصلہ یہی دیتے ہیں: 

انما اختلف اجتهادهم في الحق ما قتتلوا عليه وان كان المصيب عليا فلم يكن معاوية قائماً فيها بقصد الباطل انما قصد الحق و اخطأ والكل كانوا في مقاصدهم على الحق۔

(تاریخ ابنِ خلدون صفحہ 171)

جب لسانِ رسالتﷺ نے سیدنا معاویہؓ کو غلط نہیں ٹھہرایا سیدنا علیؓ کو اولیٰ بالحق فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان مشاجرات میں سیدنا معاویہؓ پر کہیں باطل ہونے کا چھینٹا تک نہیں آتا۔

سو یزید پر جرح کرنے والوں کو بھی چاہیے کہ ایسا کوئی انداز اختیار نہ کریں کہ اس جرح کا دھواں کہیں سیدنا معاویہؓ تک جا پہنچے۔ آپ نے اپنے آخری وقت میں یزید کو جو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ اگر سیدنا حسینؓ تیرے مقابلہ میں نکل آئیں تو تم ان کے رشتۂ رسالتﷺ کو یا د رکھنا۔ آپ اس سے اپنے رشتۂ رسالتﷺ کے ایمانی پہلو پر پوری شہادت دے گئے۔

والله اعلم وعلمه اتم واحكم۔

سویاد ر ہے کہ علماء اہلِ سنت کا یہ مؤقف کہ سیدنا علیؓ اور سیدنا معاویہؓ کا اختلاف اجتہادی حدود سے نہیں نکلتا۔ اس حدیث نبویﷺ سے ماخوذ ہے۔ یہ ان کی اپنی اختراع نہیں ہے۔

شیعہ علماء یزید کی طرف ایک یہ قول بھی منسوب کرتے ہیں اور اس سے اس کے کفر پر استدلال کرتے ہیں:

لعبت بنو هاشم ما جاء ملك ولا نزل وحى۔

 ترجمہ: بنو ہاشم نے ایک کھیل کھیلا ہے۔ ان پر کوئی فرشتہ نہیں اُترا اور نہ کوئی وحی آتی ہے۔

 اس سے مراد حضور اکرمﷺ کی ذاتِ گرامی نہیں۔ یہ نقل صحیح ہو تو اس کا مطلب یہ ہے مقابلہ میں سیدنا حسینؓ کے جو مؤقف اختیار کیا ہے ان پر کوئی فرشتہ نہیں اُترا اور نہ کوئی وحی آتی ہے کہ میں غلط ہوں اور وہ صحیح ہیں۔جب یہ بات بھی ہو سکتی ہے تو اسے خواہ مخواہ انکارِ رسالتﷺ کی دلیل ٹھہرانا ہرگز درست نہیں، ایسا ہوتا تو سب سے پہلے سیدنا عبد اللہ بن عمرؓ اس کے خلاف نکلتے اور یہ جنگ کفر و اسلام کی جنگ کہلاتی۔ حضور اکرمﷺ نے غلط حکمرانوں کے خلاف نکلنے کی تبھی اجازت دی ہے کہ وہ کھلے کفر پر آجائیں، اس صورت میں وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں رہتے۔

 نوٹ: سیدنا عبداللہ بن عمرؓ کے الفاظ با یعنا هذا الرجل قابلِ غور ہیں وہ یہاں اپنے عمل کو بیان نہیں کر رہے۔ اہلِ مدینہ کے عمل کو جب وہ نقضِ بیعت کا ارادہ کر رہے تھے بیان کر رہے ہیں کہ ہم نے اس شخص کی بیعت ایک شرط سے کی تھی اور اسی رو سے ہم نقضِ بیعت کے مجاز نہیں ہیں۔ سیدنا علیؓ نے ایک دفعہ اسی پیرائے میں کہا تھا:

والله كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم تقتل اٰباءنا وابناءنا واخواننا واعمنا 

(نہج البلاغہ جلد1:صفحہ100)

اس میں آپ اپنے عمل کو بیان نہیں کر رہے اپنے ساتھیوں کے عمل کو بیان کر رہے تھے۔ 

واللہ اعلم وعلمه اتم واحكم.