Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

مصنف ابنِ شیبہ میں ہے کہ حضرت علیؓ نے حضرت معاویہؓ پر لعنت بھیجی تھی اور حضرت معاویہؓ نے قرآن مجید کو نیزوں پر اٹھایا تھا یہ کس حد تک صحیح ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   نجم

جواب

مصنف ابنِ ابی شیبہ کی جس روایت کا حوالہ دیا گیا ہے وہ نہایت مبہم سا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر لعنت بھیجی ہو ایسی کوئی صریح روایت کتاب کے اندر موجود نہیں البتہ ایک ضعیف روایت قنوت پڑھنے والی پیش کی جاتی ہے کہ سیدنا علیؓ اور حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ نے قنوت میں سیدنا امیر معاویہؓ اور ان کے لشکر کے بارے میں بد دعا کی وہ روایت درج ذیل ہے:

حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، قَالَ:أَخْبَرَنَا حُصَيْنٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ، قَالَ: صَلَّيْتُ مَعَ عَلِيٍّ صَلَاةَ الْغَدَاةِ، قَالَ: فَقَنَتَ، فَقَالَ فِي قُنُوتِهِ: «اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِمُعَاوِيَةَ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ وَأَشْيَاعِهِ، وَأَبِي السُّلَمِيِّ وَأَشْيَاعِهِ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَأَشْيَاعِهِ

(مصنف ابنِ ابی شیبہ رقم7050 باب تسمیۃ الرجل فی القنت کتاب الصلاۃ التطوع و الامامۃ)

یہ روایت نہ تو درایتاً درست ہے اور نہ روایتاً۔

درایتاً اس کے مجروح ہونے پر کتاب وسنت کے ان گنت دلائل و شواہد موجود ہیں۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرامؓ کے باہمی محبت ایثار ہمدردی اخلاص اور تعلق کے جو بیانات ارشاد فرمائے ہیں وہ ہزار سے زیادہ آیات پر مشتمل ہیں۔ اللہ کریم نے ان کو رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ اور اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ ، اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ راشدون، فاٸزون، مفلحون، جیسے القاب سے نوازا ہے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جمل کے میدان کار زار میں دونوں طرف کے مقتولین کے جنازے پڑھائے ہیں اب بھلا اپنے مد مقابل لڑنے والے اہلِ ایمان کے جنازے پڑھنے والا اور جنازے میں ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے سیدنا علیؓ آج ان کے لیے بددعا کیسے کر سکتا ہے؟

ہر ذی شعور انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان کے جنازوں پر دعا اور قنوت میں بد دعا دو بلکل متضاد عمل ہیں کیا حیدرِ کرارؓ جیسی ہستی سے اس تضاد کی توقع رکھی جا سکتی ہے؟ہرگز نہیں پس یہ روایت درایت کے میزان پر حیدرِ کرارؓ کی شانِ اقدس مجروح کرنے کے باعث درجہ قبول سے گر چکی ہے۔

رہا اس کا روایتاً معاملہ تو اس میں ایک راوی

ھشیم بن بشیر القاسم بن دینار السلمی ہے

ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں:

کہ یہ راوی مدلس ہے

 كثير التدليس و الإرسال الخفى

امام ذہبیؒ فرماتے ہیں:

 مدلس: قال أحمد بن عبد الله العجلى : هشيم واسطى ثقة، وكان يدلس 

اس روایت کا دوسرا راوی حصین بن عبدالرحمٰن السلمی ہے ان کے بارے میں ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں کہ اس کا حافظہ خراب ہو گیا تھا۔

 تغير حفظه فى الآخر یہی وجہ ہے کہ شیخ سنابلی وغیرہ اہلِ علم نے اس روایت کی تضعیف کی ہے اور اسے شاذ قرار دیا ہے۔

اس جیسی مجروح روایتوں سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جیسی قدسی صفت جماعت پر زبان درازی کرنا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا۔