Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کی شاخوں یا بوریئے سے ایک مکان چھوٹے سے حجرے کی طرح بنا لیا تھا۔ وہاں آ کر آپ تہجد کی نماز پڑھا کرتے تھے، چند لوگ بھی وہاں آ گئے اور انہوں نے آپ کی اقتداء میں نماز پڑھی پھر سب لوگ دوسری رات بھی آ گئے اور ٹھہرے رہے لیکن آپ گھر ہی میں رہے اور باہر ان کے پاس تشریف نہیں لائے۔ لوگ آواز بلند کرنے لگے اور دروازے پر کنکریاں ماریں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصہ کی حالت میں باہر تشریف لائے اور فرمایا تم چاہتے ہو کہ ہمیشہ یہ نماز پڑھتے رہو تاکہ تم پر فرض ہو جائے (اس وقت مشکل ہو) دیکھو تم نفل نمازیں اپنے گھروں میں ہی پڑھا کرو۔ کیونکہ فرض نمازوں کے سوا آدمی کی بہترین نفل نماز وہ ہے جو گھر میں پڑھی جائے۔ حضرت رافضی اعتراض کرتے ہیں کہ نبی کے دروازے پر پتھر مارے اور نبی غصہ ہوئے، کیا یہ درست عمل تھا؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   FAISAL ABBAS

جواب

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

 اس روایت سے نبی کریمﷺ کی بے ادبی یا گستاخی کا کوئی پہلو اخذ کر لینا ایسا ہی ہے جیسا کہ قرآن پاک کی آیت:

اَلَّذِيۡنَ يَلۡمِزُوۡنَ الۡمُطَّوِّعِيۡنَ مِنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ فِى الصَّدَقٰتِ وَالَّذِيۡنَ لَا يَجِدُوۡنَ اِلَّا جُهۡدَهُمۡ فَيَسۡخَرُوۡنَ مِنۡهُمۡؕ سَخِرَ اللّٰهُ مِنۡهُمۡ وَلَهُمۡ عَذَابٌ اَلِيۡمٌ

( سورۃ التوبہ: آیت 79)

ترجمہ: (یہ منافق وہی ہیں) جو خوشی سے صدقہ کرنے والے مومنوں کو بھی طعنے دیتے ہیں، اور ان لوگوں کو بھی جنہیں اپنی محنت (کی آمدنی) کے سوا کچھ میسر نہیں ہے اس لیے وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، اللہ ان کا مذاق اڑاتا ہے، اور ان کے لیے دردناک عذاب تیار ہے۔

سے ان کے سابقین نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ریا کاری اور کنجوسی کو اخذ کیا۔

واقعہ یہ ہے کہ صحابہ کرامؓ شوق جماعت اور حضورﷺ کی اقتداء میں بارگاہِ رب العالمین کے اشتیاق میں جمع ہوئے اور اس خیال سے بولے کہ شاید نبی کریمﷺ کو ہماری حاضری کا علم نہیں اور اسی خیال سے انہوں نے چھوٹی چھوٹی کنکریاں اٹھا کر نبی کریمﷺ کے دروازے پر پھینکیں تاکہ ان کنکریوں کی اواز سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہو جائیں اور باہر تشریف لائیں اب روایت میں درج لفظ وحصبوا کا معنی پتھر کرنا ایسے لوگوں کے سواء کس کے مقدر میں ہو سکتا ہے کہ جن کے دل کے اندر صحابہ کرامؓ کا بغض اور حسد کا مرض اخیر درجہ تک پایا جاتا ہو۔ ورنہ اس لفظ کا معنی وہ چھوٹی کنکریاں ہیں جو کسی کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لٸے اس کی طرف پھینکی جاتی ہیں۔

باقی اس موقع پر نبی کریمﷺ کا اظہار ناراضگی براہِ تربیت تھا جیسا کہ استاد یا باپ اپنی اولاد یا شاگرد کو صحیح بات سمجھانے کے لیے ناراضگی کا اظہار کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا یہ شوق اور جذبہ دیکھ کر نبی کریمﷺ کو یہ گمان ہو چلا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کے اس شوق کی وجہ سے اس نماز تراویح کو فرض کر دیں گے اور اگر یہ نماز فرض ہو گئی تو اس کا پڑھنا لازم ہوگا اور چھوڑ دینے والا گناہ گار ہوگا امت پر شفقت اور رحم کی وجہ سے حضورﷺ باہر تشریف نہ لائے اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اس عمل پر ناراضگی کا اظہار کیا تاکہ ان پر مشقت نہ ہو تو رسولﷺ کی یہ ناراضگی دراصل صحابہ کرامؓ اور امت پر شفقت اور آسانی کے لیے تھی یہ ایسی ناراضگی نہ تھی کہ جس میں حضورﷺ کا غضب شامل ہو۔