شیعہ ہم (اہلسنت) سے افطاری دس مِنٹ بعد کیوں کرتے ہیں ؟ کیا قرآن سے ثابت ہے؟؟
سوال پوچھنے والے کا نام: Asadullah
جواب
روزہ کھولنے کا وقت بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں تو فقط اتنا بیان نازل ہوا کہ
ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَى الَّیْلِۚ
(سورۃ البقرہ: آیت187)
ترجمہ: پھر رات تک روزہ پورا کرو
اب قرآن پاک کی اس آیت پر نبی کریمﷺ نے جو اپنا عمل اور ارشاد بیان فرمایا اسے محدثین نے نقل کیا ہے امام بخاریؒ کا باندھا ہوا باب ان الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔
45- بَابُ تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ:
باب: روزہ کھولنے میں جلدی کرنا۔
(حدیث نمبر:1957)
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ.
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انہیں ابوحازم سلمہ بن دینار نے، انہیں سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ رسولﷺ نے فرمایا، میری امت کے لوگوں میں اس وقت تک خیر باقی رہے گی، جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔
(تخریج الحدیث:أحاديث صحيح البخاريّ كلّهاصحيحة)
یعنی سورج غروب ہو جانے کے بعد پھر افطار میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔
ابوداؤد نے سیدنا ابو ہریرہؓ سے نقل کیا ہے کہ یہود اور نصاریٰ دیر کرتے ہیں۔
حاکم کی روایت میں ہے کہ میری امت ہمیشہ میری سنت پر رہے گی جب تک روزہ کے افطار میں تارے نکلنے کا انتظار نہ کرے گی۔
ابنِ عبدالبر نے کہا روزہ جلد افطار کرنے اور سحری دیر میں کھانے کی حدیثیں صحیح اور متواتر ہیں۔
عبدالرزاق نے نقل کیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے اصحاب سب لوگوں سے روزہ جلدی کھولتے اور سحری کھانے میں لوگوں سے دیر کرتے۔
حافظ ابنِ حجرؒ فرماتے ہیں:
قال ابن عبدالبر أحادیث تعجیل الإفطارو تأخیر السحور صحاح متواترة و عند عبدالرزاق و غیرہ بإسناد صحیح عن عمرو بن میمون الأزدي قال کان أصحاب محمد صلی اللہ علیه وسلم أسرع الناس إفطاراً و أبطأهم سحوراً
(فتح الباری)
یعنی روزہ کھولنے کے متعلق احادیث صحیح متواتر ہیں۔
و اتفق العلماء علی أن محل ذلك إذا تحقق غروب الشمس بالرویة أو بإخبار عدلین و کذا عدل واحد في الأرجح قال ابن دقیق العید في هذا الحدیث رد علی الشیعة في تأخیرهم إلی ظهور النجوم
(فتح)
یعنی علماء کا اتفاق ہے کہ روزہ کھولنے کا وقت وہ ہے جب سورج کا غروب ہونا پختہ طور پر ثابت ہو جائے یا دو عادل گواہ کہہ دیں، دو نہ ہوں تو ایک عادل گواہ بھی کافی ہے۔
اس حدیث میں شیعہ پر رد ہے جو روزہ کھولنے کے لیے تاروں کے ظاہر ہونے کا انتظار کرتے رہتے ہیں جو یہود و نصاریٰ کا طریقہ ہے جس کے بارے میں آنحضرتﷺ نے اپنی سخت ترین ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔
سورج غروب ہونے کے فوراً بعد روزہ افطار کرنے میں جلدی کرنا اہلِ ایمان کی نشانی ہے۔
جو لوگ جان بوجھ کر دیر سے روزہ افطار کرتے ہیں وہ خیر پر نہیں بلکہ شر پر ہیں۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:
لا یزال الدین ظاھرًا ما عجّل الناس الفطر لأن الیھود والنصاریٰ یؤخرون۔
دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کریں گے کیونکہ یہودی اور عیسائی تاخیر کرتے ہیں۔
(سنن ابي داؤد: 2353 وسنده حسن، و صححه ابنِ خزيمه: 2060، وابنِ حبان، الموارد: 889، والحاكم عليٰ شرط مسلم جلد1 صفحہ431ووافقه الذهبي)
ابراہیم نخعیؒ نے فرمایا:
روزہ جلدی افطار کرنا سنت میں سے ہے۔
(مصنف ابنِ ابي شيبه جلد 3 صفحہ 13ح 7954، وسنده صحيح)
مزید تحقیق کے لیے پڑھیں