Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت معاویہؓ بن ابی سفیانؓ صحابی اندیانه و درفضیلت به وصف صحابیت سهیم و شریک صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہستند یانه و ایشان را بالقب حضرت و دعاے رضی اللہ عنہ یاد کردن شعار اهل سنت است یانه و کسے که در تعلیم ایشان تعمیری نماید و مرد مان را تخصیص و ترغیب بر قباٸح ایشان ساز و در رافضی بودن این کس تامل است یانه؟ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ صحابی ہیں یا نہ اور اس وصفِ صحابیت میں وہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ برابر شریک ہیں یا نہیں؟ انہیں حضرت اور رضی اللہ عنہ کے ساتھ ذکر کرنا اہلِ سنت کا نشان ہے یا نہ؟ اور جو شخص ان کی شان میں کمی کرے اور لوگوں کو ان کی کمزوری کی طرف متوجہ کرے اس کے رافضی ہونے میں کوئی تامل ہے یا نہیں؟ سوال کا جزو 2: زید کہتا ہے کہ میں سیدنا امیرِ معاویہؓ سے بدعقیدہ ہوں اور کسی طرح جی نہیں چاہتا کہ ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کہوں مگر اب تک کہا ہے اور کہتا ہوں اور کہوں گا زید یہ بھی کہتا ہے کہ سیدنا امیرِ معاویہؓ تھے تو صحابی مگر دل میں سلطنت کی محبت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ کسی طرح سے سلطنت یا خلافت اب میرے ہی خاندان میں رہے اسی بنا پر انہوں نے اپنے بیٹے یزید سے کہہ دیا تھا کہ سیدنا حسینؓ کو مار ڈالنا پھر زید اس اخیر جملے کے خلاف ایک روایت بیان کرتا ہے کہ انہوں نے (سیدنا امیرِ معاویہؓ) سیدنا حسینؓ کے مار ڈالنے کا یزید کو نہیں کہا تھا غرض زید مختلف روایتیں بیان کرتا ہے اور غالباََ اول روایت کو صحیح جانتا ہے زید اپنے خیالات کی تائید میں یہ بھی پیش کرتا ہے کہ شمس التواریخ کے مصنف نے بھی اپنی تصیف میں جابجا سیدنا امیرِ معاویہؓ پر طعن کٸے ہیں زید یہ بھی کہتا ہے کہ سیدنا ابوسفیانؓ پکے مسلمان نہ تھے البتہ مرتے وقت پکے مسلمان ہوگئے تھے؟ اب دریافت طلب یہ ہے کہ زید جو اپنے کو سُنی اور حٙنفی کہتا ہے تو ان عقائد اور خیالات کے رکھنے سے اس کی سؐنیت اور حٙنفیت میں کچھ نقصان آتا ہے یا نہیں اور ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنے میں اور اس کی محفلوں اور جلسوں میں بیٹھنے سے کچھ خرابی تو نہیں آتی اور یہ ارشاد فرمائیے کہ اہلِ سنت و الجماعت کو سیدنا امیرِ معاویہؓ اور سیدنا ابوسفیانؓ سے کیا عقیدہ رکھنا چاہیے شمس التواریخ اور اس کے مصنف جو اکبر آبادی ہیں اور غالباََ ابھی زندہ ہوں گے اسلام میں کیا رتبہ رکھتے ہیں آیا ان کی تصانیف قابلِ اعتبار ہیں یا نہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   ارم

جواب:

حضرت معاویہؓ صحابی بن صحابی اند در صحابیت و فضیلت اور شاں کرا کلام است مگر که رافضی باشد و بلقب حضرت و تحیة رضی الله عنه اورشان را یاد کردن شعار اہل سنت و جماعت ست و کسی که در شان والائے ایشاں طعنے یا تشنیع بر زبان راند شعبه از رفض وارد و قال رسول اللهﷺ فی اصحابی لا تتخدوهم من بعدى عرضاً من اجهم فبحبتی احبهم ومن ابغضهم فببغضى ابغضهم وقال عليه السلام فی معاويةؓ اللهم اجعله ھاديا و مهدیا و آنچه مشاجرات و منازعات فیما بین واقع شده ایں رابت محامل صحیحه و تاویلات مقبوله حمل تواں کرد از حضرت غوث الثقلین قدس سره منقول است که اگر در ره گزر حضرت معاویهؓ نشینم و گرد سم اسپ جناب برمن أفتد باعث نجات من شناسم پس تعجب است که چنین بزرگان دین چنال خیال فرمایند و چند کساں و ناکسان زبان درازے کنند صدق من قال چون خداخواہدکه پرده کس درد

 میلش اندر طعنه پاکان برد۔

(امداد الفتاویٰ جلد 4 صفحہ 132)۔

فقط 12جمادی الاولیٰ 1301ھ

ترجمہ: سیدنا امیرِ معاویہؓ خود بھی صحابی ہیں اور صحابی کے بیٹے ہیں ان کے صحابی ہونے اور ان کی بزرگی میں سوائے رافضی کے اور کسی کو شک نہیں ہو سکتا حضرت اور رضی اللہ عنہ کے اعزاز کے ساتھ ان کا تذکرہ کرنا اہلِ سنت ہونے کا نشان ہے اور جو شخص ان کی شان میں کسی قسم کا طعنہ یا بدگوئی کرے اس میں رافضی ہونے کا پہلو موجود ہے حضرت محمدﷺ کا ارشاد ہے میرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں خدا سے ڈرو میرے بعد انہیں اعتراضات کا نشانہ نہ بنانا جوان کے ساتھ محبت کرے گا وہ میری محبت کی وجہ سے محبت کرے گا اور جو ان کے بارے میں دل میں بعض رکھے گا وہ میرے ساتھ بغض رکھنے کی وجہ سے ایسا کرے گا اور حضورﷺ نے سیدنا معاویہؓ کے حق میں فرمایا اے اللہ سیدنا معاویہؓ کو ہدایت دینے والا اور ہدایت یافته فرما اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلافات جو واقع ہوئے ان سب کی صحیح توجیہات اور ایسی تشریحات کی جاسکتی ہیں کہ (ان میں سے کسی کے دامن پہ کوئی دھبہ نہ آئے) اور حضرت غوث الثقلین سیدنا حضرت عبد القادر جیلانیؒ سے منقول ہے کہ اگر میں سیدنا امیرِ معاویہؓ کے راستے میں بیٹھ جاؤں اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کے گھوڑے کے سم کا غبار مجھ پر پڑے تو میں اُسے اپنی نجات کا وسیلہ سمجھتا ہوں تعجب کی بات ہے کہ ایسے بزرگ تو یہ ارشاد فرمایں اور چند عوام نا اہل سیدنا امیرِ معاویہؓ پر طعن شروع کردیں (معاذ اللہ) کسی کہنے والے نے صحیح کہا ہے:

جب خدا چاہتا ہے کہ کسی کو بے آبرو کرے تو اسے پاکباز لوگوں کی طعن و تشیع میں لگا دیتا ہے۔

جواب جز دوم: ( بقلم حقیقت رقم حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانویؒ)

حدیث میں ہے: لا تسبوا اصحابی فلو ان احدكم انفق مثل احد ذهبا مابلغ مد احدهم ولا نصيفه متفق عليه۔

اور حدیث میں ہے: اکرموا اصحابی فانھم خیارکم رواه النسائی۔

اور حدیث میں ہے: لا تمس النار مسلما رأنی او راى من رأنی رواه الترمذی۔ 

اور حدیث میں ہے: من احبهم فبحبی احبهم و من ابغضهم فببغضى ابغضهم رواه الترمذی۔

اور سیدنا ابوسفیانؓ اور سیدنا امیرِ معاویہؓ صحابی یقیناً ہیں اس لیے احادیث مذکورہ ان کو شامل ہوں گی پس ان کا اکرام او محبت واجب ہوگی اور ان کو برا کہنا اور ان سے بغض و نفرت رکھنا یقیناً حرام ہوگی اور ان سے جو کچھ منقول ہے بعد تسلیم صحتِ نقل ان اعمال پر ان کے نیک اعمال ان پر غالب ہیں بلکہ خود ایک وصفِ صحابیت ایسا ہے جو سب پر غالب ہے ارشاد نبویﷺ: فلو انت احدكم الخ۔ اس پر دال ہے اور اسی بناء پر لا تمس النار الخ فرمایا ہے جو وسوسہ و خطرہ بلا اختیار دل میں پیدا ہوا وہ لائق عفو ہے اور جو عقیدہ اور تعلق اختیار سے ہو اس کی اصلاح واجب ہے اور جو شخص باختیار بد گمانی یا بد زبانی یا بغض ونفرت رکھے گا لا محالہ وہ احادیث نبویہﷺ کا مخالف اور خارج از اہلِ سنت و الجماعت ہے جیسا کہ کتبِ اہلِ سنت سے ظاہر ہے اس لیے اس کی امامت بھی مکروہ ہے اور اختلاط بلا ضرورت ممنوع وفی شرح العقائد صفحہ112:

وما وقع بينهم من المنازعات والمحاربات فله محامل و تاويلات فسبهم و الطعن فيهم ان كان مما يخالف الأدلة القطعية مكفر كقذف عائشةؓ والا بدعة وفسق۔

(امدادالفتاویٰ جلد 4 صفحہ 129 جلد 5 صفحہ 395 جدید)۔

ترجمہ: صحابہ کرام رضوان اللھ علیھم اجمعین میں جو اختلافات اور محاربات واقع ہوئے ان سب کے اپنی اپنی جگہ محل موجود ہیں امان کی ایسی توجیہات کی جا سکتی ہیں کہ ہر کسی کا اپنا مقام برقرار ہے ان بزرگوں کی شان میں طعن کرنا اگر دلائل قطعیہ یقینہ کے خلاف ہو جیسا کہ سیدہ عائشہؓ پر بہتان باندھنا تو یہ تو یقیناً کفر ہے اور اگر دلائل قطعیہ کی مخالفت نہیں اخبار احاد کے خلاف ہے تو یہ بھی بدعت اور بدکاری ہے شمس التواریخ نظر سے نہیں گزری اور نہ مصنف کا حال معلوم ہوا۔ واللہ اعلم۔