Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح کی تھی یا ان کی بیعت بھی کی تھی؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   رضا

جواب:

سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے صلح نہ کی تھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت بھی فرمائی تھی بلکہ ان کے ساتھ سیدنا حسینؓ نے بھی سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کی تھی رجال کشی میں سیدنا جعفر صادقؒ سے روایت ہے کہ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ اور سیدنا قیس بن سعد بن عبادہؓ انصاری وغیرہ حب شام آئے تو: 

فاذن لھم معاویۃؓ واعدلہم الخطباء فقال یاحسنؓ قم فبایع ثم قال للحسینؓ قم فبایع فقام فبایع۔

(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 124 ایران)۔

ترجمہ: پس سیدنا امیرِ معاویہؓ نے انہیں آنے کی اجازت فرمائی اور ان کے اعزاز میں خطیب بلائے اور سیدنا حسنؓ سے کہا کہ کھڑے ہو کر بیعت فرمائیں سیدنا حسنؓ کھڑے ہوئے اور سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت فرمائی۔ سیدنا حسنؓ کا سیدنا امیرِ معاویہؓ کی بیعت کرنا ہرگز غلطی نہ تھا بلکہ اسی مصالحت نے انہیں سیدہ ہونے کی شان سے ممتاز فرمایا خود آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے:

میرا یہ بیٹا سید ہے اور اللہ تعالیٰ اس کے ذریعہ سے مسلمانوں دو جماعتوں میں اصلاح فرمائیں گے۔ (حدیث نبوی)۔

یہ امر بھی پیش نظر رہے یہاں لسانِ نبوت سے سیدنا امیرِ معاویہؓ اور ان کی جماعت کے لیے بھی مسلمان ہونے کے الفاظ وارد ہیں پس یہ اختلافات کفر و اسلام اختلافات نہ تھے محض انتظام و معاملات کے تھے غور کیجیے کہ سیدنا حسنؓ کا یہ عمل اگر غلط ہوتا تو حضورﷺ اس پر انہیں سید ہونے کے بشارت نہ دیتے پھر سیدبا باقرؒ کا ارشاد ہے:

والذی صنعہ الحسنؓ بن علیؓ کان خیر الھذہ الامت مما طلعت علیہ الشمس۔

(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 164)۔

ترجمہ: سیدنا حسنؓ نے جو کچھ کیا وہ اس امت کے لیے ہر اس چیز سے بہتر تھا جس پر کبھی سورج طلوع ہوا۔ 

آپ ہی غور کریں کہ اگر سیدنا حسنؓ ظاہر و باطن ایک نہ ہوتا اور دل و جان سے سیدنا امیرِ معاویہؓ کے ساتھ نہ ہوتے تو اس معاہدہ میں باقاعدہ شرائط نہیظ ہوتیں کیونکہ جبری اطاعت میں شرطیں نہیں ہوا کرتیں سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے شرط لی تھی: 

صالحہ علی ان یسلم الیہ ولایۃ امرا المسلمین علی ان یعمل فیھم بکتاب اللہ و سنۃ رسول اللہ و سیرة خلفاء الصالحین۔

(بحار الانوار جلد 10 صفحہ 164 ایران)۔

ترجمہ: سیدنا حسنؓ نے سیدنا امیرِ معاویہؓ سے مصلحت کرتے ہوئے اس شرط کے ساتھ مسلمانوں کی ولایت ان کے سپرد کی تھی وہ کتاب و سنت کے مطابق حکومت کریں اور خلفائے صالحین راشدین کی سیرت پر چلیں۔

کتبہ خالد محمودع عفا اللہ عنہ 19 اپریل 1962ء۔