Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

ہفت روزہ دعوت کی 5 اکتوبر کی اشاعت میں حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ماہوار رسالہ النور مجریہ جمادی الثانی 1352سے حضرت مولانا حبیب احمد صاحب کیرانوی کا ایک مضمون رسالہ تحریفِ قرآن کی حقیقت کے نام سے شائع ہوا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شیعہ موجودہ قرآن کو نہیں مانتے میرے ایک شیعہ دوست کہتے کہ یہ الزام غلط ہے ہمارا اسی موجودہ قرآن پر پوری طرح ایمان ہے موجودہ قرآن حرف بحرف کلامِ خداوندی ہے اس کی ذرا وضاحت فرمائیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   سائل ناصر علی کراچی

جواب:

شیعہ حضرات جب یہ کہتے ہیں کہ موجودہ قرآن حرف بحرف کلامِ خداوندی ہے تو اس سے ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کے سارے حروف کلامِ خداوندی کے حروف ہیں۔ الف باء و تاء وغیرہ میں سے کوئی حرف نہیں جو کلامِ خداوندی میں نہ آچکا ہو اور یہ ایک الفاظ کا کھیل ہے جس سے عوام مغالطے میں آجاتے ہیں اور جب یہ حضرات کہتےہیں کہ یہ قرآن لفظ بلفظ کلامِ الہٰی ہے تو اس سے بھی یہی مراد ہوتی ہے کہ اس کے تمام الفاظ کلامِ الہٰی کے الفاظ ہیں ان حالات میں اگر آپ یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان دوستوں کا ایمان موجودہ قرآن پر واقعی ہے یا نہیں تو یوں پوچھیں کہ موجودہ قرآن میں:

  1. الفاظ کی باہمی ترتیب اور ہر آیت کے مختلف فقروں کی باہمی تالیف و ترتیب کیا ہوبہو وہی ہے جسے کہ آنحضرتﷺ‎ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا اور اصحابؓ کو لکھوایا تھا؟
  2. آیاتِ قرآنی کی باہمی ترتیب اور موجودہ سورتوں کی ترتیب و تالیف آنحضرت ختمی مرتبتﷺ کی پیش کردہ اور منظور شدہ ہے یا نہیں؟ آپ کا اسے نمازوں میں پڑھنا کیا ہی ترتیب سے تھا؟۔ 
  3. موجوده قرآن حرف بحرف کلامِ خداوندی ہونے کے باوجود پورا اور مکمل ہے یا اس سے بعض کی آیات کی امت کے ہاتھوں کوئی کمی بھی ہوگئی ہوئی ہے؟۔

ان تینوں سوالوں کی روشنی میں آپ کو پتہ چل جائے گا کہ شیعہ کا موجودہ قرآن پر ایمان ہے یا نہیں؟ اس میں وہ آپ کو اس بات میں الجھائیں گے کہ خود اہلِ سنت کے نزدیک بھی تو یہ موجودہ ترتیب موافق تنزیل نہیں آپ اس کے بارے میں کہیں کہ اگرچہ یہ ترتیبِ نزولی نہیں لیکن ترتیبِ رسولی ضرور ہے اہلِ سنت اس موجودہ قرآن کو اگر ترتیبِ نزولی کے موافق نہیں مانتے تو یہ بھی نہیں مانتے کہ موجودہ ترتیب امت کے اپنے ہاتھوں کی ایجاد ہے وہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے خود ہی قرآنِ پاک کو ان وقائع اور حالات کی ترتیب سے نہیں لکھایا جو ان ہنگامی مواقع کا نتیجہ تھے بلکہ اسے باذنِ الہٰی جامع ترتیب سے لکھا یا بنایا اور یاد کرایا ہے جو لوحِ محفوظ کی ترتیب کے بالکل مطابق ہے امت کی اپنی رائے کا کوئی دخل نہیں یہ ہوبہو وہی قرآن ہے جو آنحضرتﷺ نے دنیا کے سامنے پیش کیا تھا شیعہ دوست بھی اس موجودہ قرآن کو موافقِ تنزیل نہیں مانتے لیکن وہ اس کی موجودہ ترتیب کو خود آپﷺ کی ترتیب بھی تسلیم نہیں کرتے بلکہ انکا نظریہ یہ ہے کہ قرآنِ پاک اپنی موجودہ شکل میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تالیف ہے اور یہ محض ایک صحیفہ عثمانی ہے جس کے حروف اور الفاظ وہی ہیں جو قرآنِ پاک کے تھے لیکن ان کی ترتیب و تأليف قطعاً پیغمبر کی مرضی کے خلاف ہے اس مرحلے پر شیعہ اور اہلِ سنت اصولی طور پر مختلف ہو جاتے ہیں شیعہ عقائد کے ابتدائی مدارس میں "عقائد الشیعہ" ایک مشہور رسالہ رائج ہے جس کے مصنف انکے ادیبِ اعظم مولانا ظفر حسن صاحب قبلہ ہیں اور اسے شمیم بک ڈپو نے شائع کیا اور رئیس پرنٹنگ پریس سے یہ چھپا ہے اس کے(صفحہ21) پر عقیدہ ہفتم کتبِ آسمانی ایک سرخی ہے اسکے ماتحت (صفحہ 2) پر یہ شیعہ ترجمان قرآنِ پاک کے متعلق اپنا عقیدہ یوں بیان کرتے ہیں:

 قرآن کے متعلق ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو کچھ ہمارے سامنے موجود ہے یہ حرف بحرف خدا کا کلام ہے لیکن یہ موافق تنزیل نہیں اس میں مکی مدنی سورے ملے جلے ہیں حالانکہ پہلے مکی سورتیں ہونے چاہیے تھی پھر مدنی سورتیں سورہ اقراء جو سب سے پہلی سورت تھی آخری پارے میں ہے اور آیت ٱلۡيَوۡمَ أَكۡمَلۡتُ لَكُمۡ دِينَكُمۡ الخ (سورة المائدہ آیت 3) یہ سب سے آخری آیت ہے جو کہ سورة المائدہ میں ہے اس سے معلوم ہوا کہ آیتوں کی ترتیب میں بھی فرق ہے بعض سورتوں سے تو آیتوں کی کمی بھی کر دی گئی ہے۔

پھر اسی عقائد الشیعہ کے (صفحہ 32) (حاشیہ 5) میں یوں لکھا ہے:

ہمارا عقیدہ ہے کہ جو قرآن موافقِ تنزیل سیدنا علیؓ نے جمع کیا تھا وہ نسلاً بعد نسل ہمارے ائمہ کے پاس موجود رہا اور اب وہ ہمارے بارویں امام کے پاس ہے۔

امید ہے کہ ان حقائق کی روشنی میں آپ پر یہ واضح ہو گیا ہوگا کہ موجودہ قرآن پر ایمان رکھنے کے بارے میں شیعہ اور اہلِ سنت میں بنیادی اختلافات ہیں وقت کے موجودہ تقاضوں اور حالات کی موجودہ افتاد کے پیشِ نظر ان اختلافات کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے لیکن جو امور ایمان پر اثر انداز ہوتے ہیں اور پھر بہت سے معاملاتِ شرعیہ جو مبنی برایمان ہے (جیسے نکاح وغیرہ) وہ ان کی روشنی میں ہی طے ہوتے ہیں تو ایسے واقعات کو دبا جانا اور ان میں ابہام سے کام لینا اسلامی حقِ امانت کے یقیناً خلاف ہے اور خدا اس پر گواہ ہے کہ ہم نے نیک نیتی اور عامة الحق اسلام کی ہمدردی کے لیے آپ کے سوال کے جواب میں اس قدر تفصیل کی ہے۔ 

(واللہ اعلم بالصواب)۔