Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

سیدنا ابوبکر صدیقؓ سیدنا عمرؓ سیدنا عثمانؓ کہ اپنے عہدِ خلافت میں سیدنا علیؓ اور سیدنا حسنینؓ کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا جاتا تھا یہاں ایک شیعہ صاحب کہتے تھے کہ ان حضرات کے ساتھ بہت ناسلوکی کی جاتی تھی اور ان کی ذات کو ہمیشہ گرانے کی کوشش کی جاتی تھی اور یہ حضرات بھی خلفاء ثلاثہؓ سے نالاں رہتے تھے اس میں کہاں تک حقیقت ہے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   غلام علی ازمیاں چنوں ضلع ملتان

جواب:

سیدنا علی المرتضیٰؓ اور سیدنا حسنینؓ کے باسعادت عہد میں نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے تھے اور آنحضرتﷺ کی قرابت داری کے باعث ہر شخص ان سے محبت کرتا تھا آپ کے اس شیعہ دوست کا یہ خیال غلط ہے کہ ان حضرات کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا شیعہ مذہب کے عقائد کی معتبر کتاب حق الیقین میں خلفائے ثلاثہؓ کے متعلق صراحت سے لکھا ہے:

در ایام امامت خود ظاہرا در اعزاز و اکرام آں حضرت و حضراتِ حسنین علیھم السلام نہایت مبالغہ مے نموند۔

(حق الیقین صفحہ 177 لکھنؤ)۔

ترجمہ: خلفائے ثلاثہؓ اپنے عہدِ خلافت میں سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا حسنؓ سیدنا حسینؓ کے ظاہری اعزاز و اکرام میں بہت زیادہ مبالغہ فرماتے تھے۔ 

سیدنا عمر فاروقؓ کی تو یہ شان تھی کہ ان شہزادوں کو دیکھ کر فرطِ محبت میں بعض اوقات منبر سے بھی نیچے اتر آتے تھے پس ان حضرات کے خلفائے کرام سے نالاں رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا سیدنا ابوبکر صدیقؓ تو باغ فدک کی آمدنی سے ان حضرات کی ضروریات پوری فرماتے تھے اور یہ حضرات اسے ہمیشہ قبول فرماتے تھے اگر وہ روایات صحیح ہوتیں جن میں ان حضرات کے ناراض ہونے کا بیان ملتا ہے یہ مقدس بزرگ باغ فدک کی آمدنی ہرگز قبول نہ فرماتے اور ناراض ہو کر کنارہ کش ہو جاتے یہ صحیح ہے کہ نا حضرات کا راشن باغِ فدک سے ہی آتا تھا علامہ علی نقی نہج البلاغتہ لکھتے ہیں:

ابوبکرؓ غلہ وسود آں راگرفتہ بقدر کفایت باہل بیت علیہم السلام نے داد و خلفائے بعد اوہم برآں اسلوب رفتار نمودند۔

(شرح نہج البلاغہ جلد 5 صفحہ 960)۔

ترجمہ: سیدنا ابوبکرؓ باغِ فدک کا غلہ آمدنی حضرات اہلِ بیتؓ کو اس قدر بھجواتے کہ انہیں کافی ہو جاتا ہے اور بعد کے خلفاء بھی اسی تطریق پر عمل پیرا رہے۔

شارح نہج البلاغہ کا یہ بیان اہلِ بیتؓ کی ناراضگی کے وسوسے کو بالکل تار تار کر رہا ہے یہ گمان کیا جائے کہ پھر سیدہ فاطمہؓ نے باغِ فدک کے مالکانہ حقوق کے لیے دربارِ خلافت میں اپنا قاصد کیوں بھیجا کیا انہیں اس حدیثِ پیغمبر کا علم نہ تھا کہ پیغمبر کی وراثت مال میں نہیں چلتی اور ان کا سب مال ترکہ بیتُ المال کا حق ہوتا ہے؟ اس لیے بعض اوقات تعلیمِ امت کے لیے اور اس لیے کہ سب عوام و خواص کو اس مسئلے کا پتہ چل جائے ایسے عنوانات خود تیار کر لیے جاتے ہیں واقعات کے ضمن میں مسائل کا کھلنا دیر پانقوش چھوڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ نظریات کی نسبت واقعات زیادہ پختگی سے محفوظ رہتے ہیں سیدہ فاطمہؓ کے مطالبہ فدک سے پہلے پیغمبروں کی وراثت کا مال میں نہ چلنا محض ایک نظرئیے اور ایک مسئلے کے درجے میں تھا سیدہ فاطمہؓ کے اس مطالبہ سے وہ نظریہ ایک واقعی کی شکل اختیار کرکے اپنے نقوش نہایت گہرے اختیار کر گیا مراد اس سے تادیبِ امت اور تعلیمِ امت ہی تھی نہ کہ یہ معاملہ واقعی سیدہ فاطمہؓ سے پیش آرہا تھا اس میں اگر کہیں یہ وسوسہ پیدا ہو کہ سیدہ فاطمہؓ کے مقام اور احترام کو ملحوظ نہیں رکھا گیا جیسا کہ قاضی شوستری کہ رائے ہے تو اسکی وجہ یہ ہے کیا اس اصول کو پیشِ نظر نہیں جاتا کہ بعض اوقات دوسروں کی تادیب کے لیے خود اپنوں سے بھی مخصوص انداز میں ایسا عمل اختیار کرنا پڑتا ہے جو بظاہر دل میں کھٹکنے لگے لیکن حقیقت حال پر اطلاع پانے کے بعد اس میں کوئی غبار باقی نہیں رہتا ملا باقر مجلسی لکھتے ہیں:

درسیا سیات ملوک وادب ایشاں بسیار واقع می شود کہ یکے از مقرباں رامور وعتاب مے گرد آنند کہ دیگراں متنبہ شوند حق تعالیٰ اور قرآن مجید بسیار جاء نسبت بجناب نبویﷺ عتاب آمیز سخن فرمودہ است برائے تادیبِ امت۔

(حیات القلوب جلد1 صفحہ 363 ایران)۔

ترجمہ: بادشاہوں کی سیاست اور ادب میں بہت دفعہ ایسے واقعات بھی آتے ہیں کہ وہ اپنے خاص الخاص لوگوں میں سے کسی کو موردِ عتاب بنا لیتے ہیں اور مراد یہ ہوتی ہے کہ دوسروں کو پتہ چل جائے نہ یہ کہ ان مجرموں کی زجر و توبیخ مراد ہو خود اللہ تعالیٰ نے بھی قرآنِ کریم میں بہت جگہوں میں آنحضرتﷺ کے ساتھ بھی عتاب آمیز انداز میں کلام فرمایا اور مراد وہاں بھی تادیبِ امت ہی ہے (نہ کہ حضورﷺ کو معتوب کیا جارہا ہے)۔

یاد رکھیے کہ اگر سیدنا علی المرتضیٰؓ سیدنا صدیقِ اکبرؓ سے دلی طور پر ناراض ہوتے یا انہیں ان کی شان میں شبہ ہوتا تو وہ سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے پیچھے ان کے عہدِ خلافت میں نماز نہ پڑھتے اور سیدنا صدیقِ اکبرؓ کو اپنا امام نہ سمجھتے اور نہ ہی کسی صورت میں باغِ فدک کی آمدنی قبول فرماتے۔ واللہ اعلم باالصواب۔

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔