ہفتہ روزہ دعوت کی 16 نومبر کی اشاعت میں لکھا گیا ہے کہ سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے نمازیں پڑہتے رہے اور سیدنا عمرؓ کے بھی مقتدی رہے میرے ایک شیعہ دوست نے کہا ہے کہ یہ سب کچھ تقیہ کی وجہ سے تھا سیدنا علیؓ نے محض جان بچانے کے لیے ان بزرگوں کی امامت کو تسلیم کیا تھا اس پر میں نے کہا کہ سیدنا علیؓ جیسے شیرِ خدا سے یہ امید نہیں کہ وہ ڈر کر غلط کو صحیح تسلیم کرلیں اس پر اس نے کہا کہ قرآنِ پاک خود تقیہ کی تعلیم دیتا ہے قرآنِ پاک میں ہے "إِلَّا مَنۡ أُڪۡرِهَ وَقَلۡبُهُ مُطۡمَٮِٕنُّۢ بِٱلۡإِيمَانِ الخ۔" (سورة النخل آیت 106)۔ (جسے مجبور کیا جائے وہ اپنے دل میں ایمان کو قائم رکھ کر زبان سے کفر کا کلمہ بھی جان بچانے کے لیے کہہ سکتا ہے) اسی طرح "إِلَّآ أَن تَتَّقُواْ مِنۡهُمۡ تُقَاةً الخ"۔ (سورۃ آل عمران آیت نمبر 28) میں بھی ڈر کی وجہ سے اظہار خلاف الحق کی اجازت ہے اس کی وضاحت فرمائیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: اسد اللہ از جہانیاںجواب:
سب سے پہلے تو آپ یہ سمجھ لیں کہ عدمِ اظہار الحق (کسی موقع پر کسی مصلحت کی وجہ سے حق ظاہر نہ کرنا اور خاموش رہنا) اور اظہارِ خلاف الحق (حق کے خلاف کسی امرِ باطل کا مرتکب ہونا ان دونوں میں بنیادی فرق ہے اگر کسی وقت کسی مصلحت کی رو سے انسان کو اجازت ہو کہ وہ حق ظاہر نہ کرے اور چپکا ہو رہے تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اسے اس امرِ باطل اور غلط طریق کار پر عمل پیرا ہونے کی بھی اجازت ہے وہ خاموش تو رہ سکتا ہے لیکن اسے اس غلطی پر مہر تصدیق لگانے کی ہرگز اجازت نہیں آپ کے شیعہ دوست نے جو آیات قرآنیہ پیش کی ہیں ان کا اگر وہ مطلب بھی لے لیا جائے جو وہ بیان کرتے ہیں تو زیادہ سے زیادہ اس سے ایسے مجبوری کے مواقع پر "عدمِ اظہار الحق" کی اجازت ہے "اظہارِ خلاف الحق" کی اجازت کسی صورت میں نہیں۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کی امامت معاذ اللہ ثم معاذ اللہ اگر امامت باطلہ تھی تو پھر سیدنا علی المرتضیؓ کا ان کے پیچھے نمازیں پڑھنا ان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور ان کی بیعت کرنا یہ صرف عدمِ اظہارِ الحق نہیں شیعہ عقیدے کے مطابق اظہارِ خلافِ الحق بھی جائز ہے جس کی ان آیاتِ قرآنیہ میں قطعاً کوئی اجازت نہیں آپ کے اس شیعہ دوست کا دعویٰ تو اظہارِ خلاف الحق کا ہے جیسا کہ اس کے خیال کے مطابق سیدنا علیؓ نے کیا اور دلیل وہ پیش کر رہا ہے عدمِ اظہار ِحق کی بس دعویٰ اور دلیل میں مطابقت نہیں شیعہ علم کلام اور وزن استدلال یہی ہے۔
ثانیاً: یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ مبحثِ اکراہ ایسے ذمہ دار اشخاص کے متعلق نہیں جن پر کہ اظہارِ حق کا مدار ہو اور جن کے قول و فعل سے دوسروں کو حق و باطل اور حلال و حرام کا پتہ چلتا ہو مثلاً اگر انبیاء کرام علیہم السلام خدا تعالیٰ کی رضا کے ترجمان ہیں ان نفوسِ قدسیہ کے قول و فعل یہاں تک کہ ان کی خاموشی سے بھی کسی امر کے اللہ تعالیٰ کے ہاں پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہونے کی سند ملتی ہے اب اگر یہ حضرات کسی مصلحت کا شکار ہو جائیں جان بچانے کے لیے باطل کی ہاں میں ہاں ملائیں یا کم از کم اظہارِ حق سے باز رہیں تو آخر حق ظاہر کس طرح ہو گا اور کب ہو گا؟ پس مبحثِ اکراہ اور مجبوری کی اس حالت کو ان غیر ذمہ دار اشخاص سے متعلق سمجھا جائے گا جن کا کتمانِ حق اور جن کی خاموشی حق کے ظاہر ہونے اور باطل سے ممتاز ہونے پر اثر انداز نہ ہوتی ہو۔
اگر یہ سوال پیدا ہو کہ وہ آیات جن میں کتمانِ حق کی بہ مصلحت اجازت ہے عام ہیں اور ان کی تخصیص و تقید ان لوگوں سے جن پر تبلیغِ حق کا مدار نہیں یہ کس دلیلِ نفی پر مبنی ہے تو اس کے لیے اس قرآنی آیت کو پیش نظر رکھیئے:
ٱلَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ ٱللَّهِ وَيَخۡشَوۡنَهُ ۥ وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ الخ (سورة الاحزاب آیت 39)۔
ترجمہ: جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور اس کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے۔
اس آیتِ شریفہ نے بتلا دیا کہ جن پاک ہستیوں پر تبلیغِ حق کا مدار ہے وہ اللہ رب العزت کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے پس ان کے کسی مصلحت کے شکار ہونے اور اظہارِ خلاف الحق پر آمادہ ہونے کا سوال پیدا نہیں ہوتا ورنہ حق ہی مشتبہ ہو کر رہ جائے گا اصول کا قاعدہ ہے کہ جب علت معلوم ہو تو باقی میں حکمِ ظنی نہ ہوگا تبلیغ جاری رہے مجروح ہونے نہ پائے یہ علت ہے پس جو بزرگ بھی انبیاء علیہ السلام کے منہاج پر ہوں اور ان کی نیابت میں اپنے اپنے وقت میں تبلیغِ حق اور اظہارِ حلال و حرام کا مدار اور مرکز ہوں ہے ان کے لیے کتمانِ حق کا جواز اور خلاف الحق کا ارتکاب کسی صورت میں جائز نہیں رہتا۔
"إِلَّا مَنۡ أُڪۡرِهَ وَقَلۡبُهُ مُطۡمَٮِٕنُّۢ بِٱلۡإِيمَانِ الخ"۔ (سورة النخل آیت 106)۔ کے عموم میں اگر خواہ مخواہ انبیاء کرام علیہم السلام اور ائمہ عظام کو بھی داخل کریں تو یہ بھی پیشِ نظر رہے کہ جہاں عموم الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے وہاں یہ شرط ہے کہ قرائن و دلائل سے معلوم ہو جائے کہ متکلم کی مراد بھی یہی عموم تھا اور اگر قرائن خود بتلائیں کہ متکلم کی اپنی مراد اتنا عموم نہیں تو اس عموم سے ہر جگہ استدلال نہیں کیا جائے گا جیسا کہ حدیث "ليس من البر الصيام فک السفر" (سفر میں روزہ رکھنا یہ کوئی نیکی نہیں) میں اگرچہ الفاظ کا عموم ہے مگر دوسرے دلائل سے یہ ثابت ہے کہ یہ حکم ہر روزہ دار کے لیے عام نہیں بلکہ صرف انہی روزہ داروں کے لیے ہے جن کی حالت پریشان ہو جائے اسی طرح ان آیات کو جن سے کتمانِ حق بضرورت و مصلحت کی اجازت مفہوم ہوتی ہے اگر عموم پر بھی محمول کیا جائے تو پھر بھی "ٱلَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَالَاتِ ٱللَّهِ وَيَخۡشَوۡنَهُ ۥ وَلَا يَخۡشَوۡنَ أَحَدًا إِلَّا ٱللَّهَۗ الخ"۔ (سورة الاحزاب آیت 39)۔ یہ نص اس کی تخصیص ہوگی اور علت معلوم ہونے پر أئمہ بھی (خصوصاً امامت کے اس تصور کے ساتھ جو شیعہ امامیہ میں پایا جاتا ہے اس تخصیص میں انبیاء کرام علیہ السلام کے ساتھ ملحق ہوں گے پس ان کے لیے تقیہ کا جواز کسی صورت میں باقی نہیں رہتا۔
ثالثاً: یہ امر واقع بھی پیشِ نظر رہے کہ اگر ایسی مصلحتیں سیدنا علیؓ کو خلفائے ثلاثہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قیادت اور امامت قبول کرنے کے لیے سندِ جواز بخش سکتی تھیں تو پھر سیدنا حسینؓ نے میدانِ کربلا میں تقیہ کیوں نہ کرلیا آخر سیدنا علی المرتضیؓ سیدنا حسینؓ سے تو زیادہ بہادر قرآن دان اور مدبّر تھے یہ یقین کیجئے کہ انہوں نے سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ کو حق سمجھ کر ہی قبول کیا تھا اور انہیں اپنا حقیقی امام سمجھ کر ہی ان کے پیچھے نمازیں پڑہتے تھے جیسا کہ احتجاج طبرسی صفحہ 60 مطبوعہ نجف اشرف میں تصریحاً موجود ہے۔ واللہ اعلم۔
کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔