Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

جو لوگ کفار و مشرکین کی اولاد ہیں یا جو لوگ پہلے خود کفر و شرک سے آلودہ تھے قبولِ اسلام کے بعد کیا ان میں محض اس لیے کہ وہ کفار و مشرکین کی اولاد ہیں کوئی کمی و نقص باقی رہ جاتا ہے سنا ہے کہ وہ آلِ طیب اور ذریتِ طاہرہ نہیں کہلا سکتے یہ طیب اور طاہر ہونا محض انہی مومنین کے لیے ہے جو اصلابِ طاہرہ سے ہی منتقل ہوتے چلے آئے ہیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   حکیم ذو القرنین از لاہور

جواب:

قبول اسلام کے بعد کوئی کمزوری اور آلودگی باقی نہیں رہ جاتی اسلام قبول کرنے والے کا کفار و مشرکین کی نسل میں سے ہونا کوئی عیب نہیں آنحضرتﷺ نے سب سے بڑے بد بخت ابوجہل کو بھی مخاطب کر کے ارشاد فرمایا تھا:

يا أباجهل انما رفع عنك العذاب لعلمه بأنه سيخرج من صلبك ذرية طيبة۔

(احتجاج طبرسی صفحہ 18)۔

ترجمہ: اے ابوجہل اللہ تعالیٰ نے تجھ سے عذاب عامہ اس لیے اٹھایا ہوا ہے کہ وہ جانتےہیں کہ تیرے صلب سے ایک ذریۃ طیبہ پیدا ہوگی۔

یہاں ذریتِ طیبہ کے الفاظ پوری صراحت سے موجود ہیں پس جب کہ ابوجہل جیسے ازلی بدبخت کی اولاد میں سے بھی سیدنا عکرمہؓ پیدا ہوسکتے ہیں اور اس کی صلب سے بھی طاہر و طیب ذریت نکل سکتی ہے تو آبا و اجداد کا کفر ان کی مومن اولاد میں کسی قسم کی کمزوری یا نقص کا سبب بن سکتے ہیں آباؤ اجداد تو درکنار انسان نے خود جو اعمال بحالتِ کفر کئے ہوں اگر اسلام لانے کے بعد اس کے اعمال نیک ہوں تو اس پر اس کے اعمالِ جاہلیت سے قطعاً کوئی مواخذہ نہیں ہوگا سیدنا جعفر صادقؒ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:

من احسن فی الاسلام لم يوخذ بهما عمل فی الجاهلية۔

(اصول کافی مع شرح الصافی جلد 4 صفحہ 360)۔

ترجمہ: جو اسلام قبول کر کے اچھے اعمال کرے تو اسے اعمالِ جاہلیت پر کسی قسم کا کوئی مواخذہ نہ ہوگا بعض صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تنقیص محض اس لیے کرنا کہ پہلے وہ خود کفر میں تھے یا اُن کے آبا ؤ اجداد کفر و شرک سے آلودہ تھے یہ اسلام کی روشن تعلیمات آنحضرت ختمی مرتبتﷺ کے ارشادات اور سیدنا جعفر صادقؒ کی روایات سے بے خبری پر مبنی ہے۔

 کتبة خالد محمود عفا الله عنه دسمبر۔