Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ پر مالک بن نویرہ کو قتل کرنے اور اس کی بیوی سے دورانِ عدت نکاح کرنے کے الزام میں سیدنا خالد بن ولیدؓ پر کوئی حد جاری نہیں کی اس کی وجہ کیا تھی؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   عبدالغفار بابر ڈیرہ اسماعیل خان

جواب:

آپ کا پیش کردہ الزام جن تاریخی روایات پر مبنی ہے اگر ان روایات کے ضعیف ہونے کو نہ بھی پیش نظر رکھا جائے تو زیادہ سے زیادہ اخبار احاد ہوں گی سیدنا صدیقِ اکبرؓ کا خدا اور اس کے رسولﷺ کا محبوب ہونا اور ان کے مقام رضا پر فائز ہونا یہ امر اخبارِ متواترہ سے منقول ہے پس جب خبرِ واحد اور خبرِ متواتر میں تعارض ہوگا ترجیح خبرِ متواتر کو ہوگی اس لیے ایسے تمام الزامات جو سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے مرکزی تقدس کے خلاف ہوں گے از خود غلط اور افتراء ہوں گے۔

ثانیاً اس الزام کے دو حصے ہیں اول مالک بن نویرہ کا قتل دوم درانِ عدت میں نکاح جہاں تک پہلے حصہ کا تعلق ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی وفات شریفہ کی خبر سن کر مالک بن نویرہ نے جسے کہ آنحضرتﷺ نے وادی بطاح میں اخذ صدقات کے لیے مامور کیا ہوا تھا وصول شدہ صدقات سب واپس کر دئیے تھے اور یہ بات مشہور تھی کہ مالک بن نویرہ نے وفات کی خبر سن کر خوشی منانے حنا بندی کرنے دف بجانے اور اسی طرح فرحت و مسرت کے سب دوسرے آداب اختیار کئے ہیں پھر جب سیدنا خالد بن ولیدؓ طلیحہ بن خویلد اسدی مدعی نبوت کی مہم سے فارغ ہو کر بطاح میں پہنچے اور مالک بن نویرہ سیدنا خالدؓ کے سامنے پیش ہوئے تو اتفاق سے مالک بن نویرہ کا اندازِ گفتگو ایسا تھا جس سے ارتداد کی بو آرہی تھی مثلاً آنحضرتﷺ کی کسی بات کو نقل کرتے ہوئے مالک بن نویرہ نے کہا:

قال رجلکم او صاحبکم کذا۔

تمہارے ساتھی اور تمہارے آدمی نے یوں کہا ہے۔

اس پر غیرتِ اسلام سیدنا خالد بن ولیدؓ بہت برہم اور مشتعل ہوئے اور مالک کے قتل کا حکم دے دیا پھر اگر یہ قتل بےجا بھی ہو اور سیدنا خالد بن ولیدؓ کا مالک بن نویرہ کے مرتد ہونے کا یقین واقعةً غلط بھی ہو تو سوال یہ ہے کہ آیا اس صورت میں سیدنا خالد بن ولیدؓ پر قصاص لازم آتا ہے کہ خلیفہ وقت پر قصاص نہ دلوانے کا الزام کیا جا سکے آنحضرتﷺ کا ارشاد ہے ادرو الحدود بالشبھات واضح ہے کہ شبہات پیدا ہونے سے حدیں ساقطہ ہو جاتی ہیں اور ہر عدالت میں شک کا فائدہ ملزم ہی کو ملتا ہے یہ اصول فطرتِ شریعت اور قانون کے بالکل مطابق ہے چنانچہ سیدنا خالد بن ولیدؓ آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں بھی ایک دفعہ ایسی غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے اور ایک پوری کی پوری آبادی کو تہہ تیغ کر دیا تھا اس پر آنحضرتﷺ سخت ناراض ہوئے تھے اور یہ بھی فرمایا تھا:

اللھم انی ابراء الیک مماصنع خالدؓ۔

ترجمہ: اے اللہ میں سیدنا خالدؓ کے عمل سے تیری طرف ہوتا ہوں۔

اس لیے کہ سیدنا خالد بن ولیدؓ شبہ کا شکار تھے اور شبہ سے حدود ساقط ہو جاتی ہے حضورﷺ نے سیدنا خالد بن ولیدؓ پر کوئی حد جاری نہ فرمائی تو یہ عمل عین سنت خیر الانامﷺ کی پیروی ہے نہ یہ کہ اس پر سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے خلاف کوئی الزام عائد ہوسکے سیدنا خالدؓ حکومت کی طرف سے ایک ڈیوٹی پر مقرر تھے اور اس سلسلے میں ان کی غلط فہمی کی کاروائی کی زمہ داری بھی حکومت پر ہی عائد ہوتی تھی چنانچہ اس ذمہ داری سے سیدنا صدیقِ اکبرؓ پوری طرح عہدہ برآ ہوئے اور بیتُ المال سے مالک بن نویرہ کے خون کی دیت ادا فرما دی اس صورت میں الزام سیدنا صدیقِ اکبرؓ پر وارد نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم باالصواب۔

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔

امر دوم ___ یہ کہ اسکی عورت سے حضرت خالد بن ولیدؓ نے اسی وقت نکاح کر لیا یہ کسی معتبر کتاب میں قابل اعتبار سند سے منقول نہیں اور اگر یہ کہی یہ واقعہ مزکور ہے تو وہاں اس بات کی بھی تصریح ہے کہ وہ عورت اس وقت مالک بن چکی قائم مقام بیوی نہ تھی مطلقہ عورت تھی جسکی کی عدت طلاق پوری ہو چکی تھی پس اس صورت میں عقد نکاح پر کوئی شرعی اعتراض لازم نہیں ہوتا۔

واللہ اعلم باالصواب