آپ کے دعوت رسالہ کا مطالعہ جاری ہے اس میں بعض جگہ سیدنا علیؓ کے ساتھ علیہ اسلام لکھا ہوتا ہے کیا یہ جائز ہے یا ناجائز اگر جائز ہے تو پھر سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے نام پر کیوں ایسا نہیں لکھا جاتا حالانکہ سیدنا صدیقِ اکبؓر تو سیدنا علیؓ کے بھی امام تھے اور سیدنا علیؓ سیدنا ابوبکرؓ کے پیچھے ہی نماز پڑہتے تھے اور سیدنا علیؓ نے سیدنا ابوبکؓر کے ہاتھ پر بیت بھی کی ہوئی تھی پھر کیا وجہ ہے کہ سیدنا علیؓ کے ساتھ توآپ علیہ اسلام لکھیں اور ان کے اپنے امام اور پیشواء پر صرف رضی اللہ عنہ لکھیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: عبدالعزیز جماعت دہم جامپورجواب:
انبیاء کرام علیہم السلام کے سوا کسی کے لیے بھی اس طرح بالاستقلال صلوٰۃ و سلام لکھنا اہلِ سنت و الجماعت کے نزدیک جائز نہیں آپ نے دعوت کے جن پرچوں میں سیدنا علیؓ کے نام کے ساتھ علیہ السلام آپؓ کے لیے لکھا دیکھا ہے وہ کاتب کی غلطی ہے ادارے کی نہیں کاتب لوگ عام طور پر صاحب علم نہیں ہوتے اور جہاں کسی بزرگ یا شخصیت کا نام آجائے وہیں اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ ایسے تعظیمی الفاظ لکھ دیتے ہیں اور ایسا زیادہ تر اس رواجِ عام کی بنا پر ہے جو عملاً پہلے سے رائج ہے مسئلہ وہی ہے جو ہم نے لکھ دیا ہے اور اگر علیہ السلام اور السلام علیہ میں فرق نہ بھی کیا جائے اور اس لیے کہ ہم روز مرہ ایک دوسرے کو السلام علیکم کہتے ہیں اور تمام بزرگانِ دین کے نام کے ساتھ علیہ اسلام لکھنے کو جائز قرار دیا جائے تو بھی اس میں اہلِ بدعت کے شعار پر عمل لازم آتا ہے اس لیے ایسے تمام آداب سے بچنا لازم ہے سیدنا ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر کے ملحقات میں فرماتے ہیں:
ان قول على عليه السلام من شعار اهل البدعة فلايستحسن فی مقام المرام۔
(شرح فقہ اکبر صفحہ 204 مطبوعہ کانپور)
سیدنا علیؓ کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا اہلِ بدعت کا شعار ہے پس یہ مقامِ مقصود پر بھی مناسب نہیں۔
اور اگر کسی جگہ اس کا شعار اہلِ بدعت ہونا ثابت اور واقع نہ ہو تو بنابریں قول کہ السلام علیہ اور علیہ السلام میں کوئی فرق نہیں اسے سیدنا صدیقِ اکبرؓ کے نام کے ساتھ لکھنا بھی جائز ہوگا پھر قوموں کے شعار زمانہ کے اختلاف سے بدلتے رہتے ہیں آنحضرتﷺ کے عہد مبارک میں اہلِ کتاب اپنی عبادت گاہوں میں جوتے سمیت نہ جاتے تھے غالباً اس کی وجہ یہ تھی کہ اللہ رب العزت نے کوہِ طور پر جب اپنی مثالی تجلی کا نزول اجلال فرمایا تو حضرت موسی علیہ السلام کو حکم دیا تھا فٙاخْلَعْ نَعْلَيْكَ اِنَّكَ بِالْوَادِ المُقَدَّسِ طُوًی۔
(سورة طٰہٰ آیت 12)۔
کہ اپنے جوتے اتار دیں آپ ایک پاکیزہ وادی میں تشریف رکھتے ہیں آنحضرت ختمی مرتبتﷺ نے اس مسئلے کا ذکر کر کے اور یہود و نصاریٰ کے ساتھ مشابہت پکڑنے سے منع فرماتے ہوئے اپنی امت کو جوتوں سمیت عبادت کے لیے آنے کا حکم دیا تھا (بشرطیکہ جوتے ناپاک نہ ہوں لیکن آج جب کہ اہلِ کتاب اپنے اس شعار کو چھوڑ چکے ہیں اور اب وہ اپنے گرجوں اور کلیسوں میں بوٹوں سمیت جاتے ہیں تو اب اس تنشبہ سے گریز اور ان کے شعار سے دوری ضروری ہے اور وہ صرف اسی صورت میں رہ سکتی ہے کہ ہم اپنی عبادت گاہوں میں جوتوں سمیت نہ جائیں اس سے معلوم ہوا مختلف قوموں کے شعار مختلف زبانوں میں اور مختلف علاقوں میں مختلف ہوتے ہیں حضرت مولانا علامہ الشیخ خلیل احمد صاحب محدث سہارنپوریؒ نے بذل المجهود شرح ابی داؤد میں اسی نظریہ کی تائید فرمائی ہے جب خوارج سیدنا علی المرتضیٰؓ کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے انہیں "سود اللہ وجھہ" کے نام سے ذکر کرتے تھے تو اہلِ سنت خوارج کے مقابلہ میں سیدنا علیؓ کا نام کرم اللہ وجہہ کے ساتھ لیتے تھے آج کل ہمارے بلاد میں خوارج تقریباً ناپید ہیں اس لیے اب سیدنا علی المرتضیٰؓ کے نام کے ساتھ کرم اللہ وجہہ کہنے کی ضرورت باقی نہیں رہی اب ان کے نام کے ساتھ بھی وہی قرآنی اعزاز کافی ہے جو رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ کے الفاظ میں تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لیے وارد ہے حافظ ابنِ کثیرؒ اور دوسرے کئی علماء نے کرم اللہ وجہہ کہنے کی بجائے رضی اللہ عنہم کہنے کی تائید فرمائی ہے۔ حاصل ایں کہ اگر کسی طبقے یا علاقے میں ان بزرگانِ کرام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا اہلِ بدعت کا شعار ہو پھر تو اس سے پرہیز لازم ہے اوراگر یہ کسی ایک گروہ کا شعار نہ رہا ہو تو پھر اسے مذکورۃ الصدر اصول کی روشنی میں دوسرے بزرگوں کے نام کے ساتھ لکھنا بھی ممنوع نہ سمجھنا چاہیئے کاتب حضرات کی یہ کارکردگی صرف ہفت روزہ دعوت کے صفحات پر ہی نہیں کتبِ احادیث کی نقل و کتابت میں بھی یہ لوگ ایک رواجِ عام کے تاثر میں ان بزرگوں کے ناموں کے ساتھ علیہ السلام لکھ جاتے ہیں۔
والله اعلم بالصواب۔
کتبه خالد محمود عفا اللہ عنہ۔