سیدہ فاطمہؓ اپنے خاوند سیدنا علیؓ سے ہمیشہ خوش رہیں یا کبھی ناراض بھی ہوئیں اگر کسی معاملے میں ناراض ہوئیں تو بتلایا جائے کہ ان امور میں حق سیدہ فاطمہؓ کے ساتھ تھا یا حق پر سیدنا علی المرتضیؓ ہوتے تھے؟ میں نے بعض لوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ سیدہ فاطمہؓ تو سیدنا علیؓ کے ساتھ شادی کرنے پر بھی خوش نہ تھیں مگر آنحضرتﷺ کے سجھانے پر راضی ہوگئیں یہ صحیح ہے یا غلط نیز اس مسئلے کی بھی وضاحت کر دی جائے کہ سیدہ فاطمہؓ کبھی سیدنا علیؓ سے ناراض ہوئی ہوں تو اس حدیث کا کیا جواب ہوگا کہ جس نے سیدہ فاطمہؓ کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا اور جس نے مجھے ناراض کیا اس نے خدا کو ناراض کیا؟
سوال پوچھنے والے کا نام: محمد امین از سنت نگر لاہورجواب:
سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا علیؓ ان دونوں بزرگوں کے متعلق ہمارا عقیدہ ہے کہ اسلام کی یہ ہر دو شخصیتیں اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول اور ان کی زندگیاں خدا اور اس کے رسولﷺ کی رضا جوئی میں معمول تھیں ان میں اگر کبھی باہمی اختلافات بھی ہوئے ہوں اور خاوند بیوی جو پوری زندگی کے ساتھی ہوتے ہیں تو ان میں بتقاضائے بشریت کچھ غلط فہمیاں اور اختلافات پیدا ہو جائیں تو ہمیں پھر بھی یہی چاہیے کہ ان معاملات میں دخل نہ دیں ان بزرگوں اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی مشاجرات کو کچھ وقتی حالات اور کچھ وقتی غلط فہمیوں پر محمول کریں اور مجموعی طور پر یہی طریقہ رکھیں کہ ان سب حضرات کی نیات خیر کی تھیں اور ان کی مجموعی زندگی اللہ رب العزت کے ہاں نہایت اعلیٰ درجہ کی مقبول تھی ان کے باہمی اختلافات میں زیادہ دخل دینا ایمان کو کمزور کرتا ہے ان سے بچنا چاہیے۔
ثانیاً یہ صحیح ہے کہ سیدہ فاطمہؓ نے سیدنا علیؓ کے خلاف آنحضرتﷺ کے پاس کئی دفعہ شکایت کی اور کئی موقعوں پر ناراضگی کا اظہار کیا چنانچہ ملا باقر مجلسی نے جلاء العیون (مطبوعہ ایران) کے صفحہ 193۔141۔164 اور 326 وغیرہا پر ایسے کئی واقعات نقل کئے ہیں لیکن ان مواقع کا اگر تجزیہ کیا جائے تو حق سیدنا علی المرتضیٰؓ کی طرف نظر آتا ہے "الحق مع علیؓ" اور ان معاملات میں سیدہ فاطمہؓ محض غلط فہمی کی وجہ سے شکایت کر رہی ہوتی ہیں لیکن اس سے سیدہ فاطمہؓ کی شان میں کوئی فرق نہیں آتا اللہ تعالیٰ کے ہاں معاملہ نیتوں پر مبنی ہے اور سیدہ فاطمہؓ کی ان اختلافات میں بھی نیت مبنی بر خیر تھی۔
ثالثاً حدیث میں جو آتا ہے "من اغضب فاطمةؓ فقد اغضبنی" سیدنا علیؓ اس حدیث کی وعید میں عملاً نہیں آتے اولاً اس لیے کہ اس میں محض سیدہ فاطمہؓ کی ناراضگی محلِ نکیر نہیں اغضاب محلِ نکیر ہے جس میں ارادہ اور نیت شامل ہیں یعنی اگر کوئی شخص ارادے اور نیت سے سیدہ فاطمہؓ کو ناراض کرے تو وہ بے شک آنحضرت ختمی مرتبتﷺ کو ناراض کرنے کا موجب ہے لیکن جس کے ارادے اور اقدام میں اغضاب (یعنی ناراض کرنا) داخل نہیں بلکہ سیدہ فاطمہؓ کو کوئی غلط فہمی ہو جائے تو پھر وہ فرد حدیثِ مذکور کی وعید میں عملاً دخل نہ ہوگا اس تفصیل سے آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ سیدنا علیؓ پر ان اختلافات کی وجہ سے کوئی حرف نہیں آتا اور نہ ہی اس سے سیدہ فاطمہؓ کی شان میں کوئی کمی واقع ہوتی ہے اگر کبھی ایسے چند واقعات پیش بھی آئے تو بتقاضائے بشریت تھے ان مشاجرات کی تفصیل میں جانا ہمارے لیے مناسب نہیں علاوہ ازیں سیدہ فاطمہؓ کی بعد کی رضامندی پہلے سب اختلاف کو دھو دیتی ہے۔
رابعاً سیدہ فاطمہؓ کا سیدنا علیؓ کے ساتھ شادی کرنے کو تشویش اور ناراضگی کے ساتھ دیکھنا یہ محض وقتی طور پر ہوا تھا شیعہ روایات نے اس مقام پر سیدنا علیؓ کے حلیہ مبارک اور مالی پوزیشن پر بھی بحث کی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ایسی تمام روایات صحیح نہ ہوں گی سیدہ فاطمہؓ اور سیدنا على المرتضیٰؓ کا مقام اس سے بہت بلند ہے کہ ہم ان اُمور کی نسبت اسلام کے ان صفِ اول کے بزرگوں کی طرف کریں سیدہ فاطمہؓ کو جو وقتی طور پر تشویش ہوئی وہ پھر آنحضرتﷺ کے سمجھانے سے دور ہوگئی تھی۔
واللہ اعلم بالصواب۔
کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔