رمضان شریف میں جو شخص تراویح پڑھ چکا ہو اب اس کے لیے نمازِ تہجد کا حکم کیا ہے؟ کیا تہجد تراویح سے علیحدہ کوئی اور نماز ہے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اس مہینے عمل کیا تھا؟ کیا کسی صحابیؓ سے تراویح کے باوجود علیحدہ تہجد ثابت ہے نیز بتائیے کہ اگر کوئی شخص رمضان میں تہجد پڑھے تو اسے کتنی رکعت پڑھنی چاہئیے؟
سوال پوچھنے والے کا نام: ارشاد احمد از سرائے عالمگیرجواب:
تراویح اور تہجد دو علیحدہ علیحدہ اور مستقل نمازیں ہیں تہجد سارا سال پڑھی جاتی ہے اور تراویح صرف رمضان شریف میں ہی ثانیاً تہجد کی نماز ابتدائے اسلام میں حکم باری تعالیٰ شروع ہوئی اور تراویح کی نماز آنحضرتﷺ نے خود مشروع فرمائی حضورﷺ ارشاد فرماتے ہیں: شهر كتب الله عليكم صيامه وسننت لكم قيامه۔ (ابن ماجہ صفحہ 65)۔
ترجمہ: یہ ایسا مہینہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے روزے تم پر فرض فرمائے اور میں نے اس کا قیام (یعنی تراویح) تمہارے لیے مشروع بنایا۔
ثالثاً آنحضرتﷺ کے زمانے میں ایک دفعہ رمضان کا چاند نظر نہ آنے پر یوں فیصلہ کیا گیا ان لا يصوموا وان لا يقوموا کہ نہ روزہ رکھا جائے اور نہ تراویح پڑھی جائیں۔ اگر تراویح تہجد کی نماز کے علاوہ کوئی علیحدہ نماز نہ ہوتی تو حضورﷺ رمضان کا چاند نظر نہ آنے پر اس نماز کے نہ پڑھنے کا حکم ہرگز صادر نہ فرماتے۔ (رواه الدار قطنی)۔
رابعاً آنحضرتﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تہجد کی نماز تراویح کے علاوہ بھی ثابت ہے سنن نسائی میں ہے: عن قيس بن طلق قال زارنا ابی طلق بن على فى يوم من رمضان وامسیٰ بنا و قام بنا تلك الليلة و اوتر بنا ثم انجدر الى مسجد فصلى بأصحابه حتىٰ بقى الوتر ثم قدم رجلا فقال اوتر بهم فانی سمعت رسول اللهﷺ يقول لا وتران في ليلة۔ (سنن نسائی جلد 1 صفحہ 189)۔ سیدنا طلق بن علیؓ صحابی رسولﷺ سے یہاں تین نمازیں ثابت ہیں: پہلے قیام رمضان پھر وتر اور وتر کے بعد پھر ایک اور نماز ظاہر ہے کہ یہ تیسری نماز تہجد کی نماز تھی معلوم ہوا کہ رمضان میں تراویح کے علاوہ تہجد کی علیحدہ نماز بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ثابت ہے۔
خامساً حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: یكره صلوة النوافل فى جماعة بعد التراويح فى احد الروايتين عند الامام وروى عن انس بن مالكؓ انه كرهه بل نيام نومة خفيفة ثم يقوم يأتی بماشاء من النوافل والتهجد ثم يرجع إلى منامہ۔ حضرت شیخ جیلانیؒ کے اس فیصلے سے معلوم ہوا کہ تراویح کے بعد نمازِ تہجد مستقل طور پر ایک علیحدہ نماز ہے اور ان دونوں نمازوں کو ایک ہی نماز نہ سمجھا جائے۔
سادساً حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلویؒ کا فیصلہ بھی یہی ہے کہ تراویح اور تہجد دو علیحدہ علیحدہ نمازیں ہیں اور قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہیؒ نے بھی الرای النجیح میں اسی فیصلے کی تائید فرمائی ہے۔
تہجد کی رکعات: تہجد کی رکعات آنحضرتﷺ سے علاوہ وتر کے عموماً آٹھ رکعت ثابت ہیں حضورﷺ کی رمضان شریف کی تہجد میں اور اس مہینے کے علاوہ دوسرے اوقات کی تہجد میں کوئی بنیادی فرق نہ تھا ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضورﷺ رمضان اور غیر رمضان میں عام طور پر گیارہ رکعت (مع وتر) کے پڑھتے تھے حضرت امام بخاریؒ نے اس حدیث کو کتاب التہجد میں روایت کیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔ کتبه خالد محمود عفا الله عنه۔