Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا یہ جائز ہے کہ نماز کی اذان اپنے گھر میں کہی جائے اور اس کی نماز پھر مسجد میں جا کر پڑھی جائے؟ 2۔ شیعہ کی مروجہ اذان کسی امام سے ثابت ہے یا کسی شیعہ کتاب نے اسے تحریر کیا ہے ان کی اذان کا یہ جملہ اشهد ان علیا ولی اللہ کسی جگہ ثابت ہے؟ اسے شیعہ کتاب کے حوالہ سے بیان کیا جائے؟ 3۔ اہلِ سنت صبح کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہتے ہیں اہلِ سنت کے نزدیک اس کا ثبوت کیا ہے؟ اور اس کا کیا درجہ ہے۔ امید ہے جواب جلدی دیں گے؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   منظوراحمد شاہ کہروڑی محله فرید آباد ملتان۔

جواب:

اذان اور نماز ایک ہی جگہ ہونی چاہئیے اگر نماز مسجد میں جا کر پڑھ سکتا ہے تو پھر اس کی اذان کے گھر میں ہونے کے کیا معنیٰ؟ مؤذن جب کہتا ہے حی علی الصلاة نماز کی طرف آؤ تو اگر اس مقامِ اذان میں نماز ہوتی ہی نہیں تو وہاں سے حی علی الصلوٰة کی پکار کا کیا مطلب آنحضرتﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہی ثابت ہے کہ اذان اور نماز مقام واحد ہی میں ہوتی تھیں اس اصل کے خلاف جو بھی دعویٰ ہے وہ محتاج ثبوت ہے شیعہ مذہب میں بھی یہ کہیں ثابت نہیں کہ اذان گھر میں اور نماز مسجد میں ادا ہو جو شخص اس کا مدعی ہے اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ بارہ اماموں میں سے کسی امام کا فصیلہ پیش کرے من ادعیٰ فعلیہ البیان۔

2۔ شیعہ کی مروجہ اذان کا جملہ اشهدان علیا ولی اللہ ان کے کسی امام سے منقول نہیں سیدنا حسینؓ کے قیامِ کربلا کے وقت جو اذانیں کربلا میں دی گئیں ان میں بھی یہ جملہ کہیں نہیں ملتا سیدنا زین العابدینؓ سیدنا باقرؒ اور سیدنا جعفر صادقؒ سے بھی اس کا کوئی ثبوت شیعہ کتب میں نہیں ہے حضور کریمﷺ جب سیرِ معراج پر تشریف لے گئے تو بیت المقدس میں جو تمام انبیاء کرام علیہ السلام کی امامت فرمائی اور اسی طرح جب آسمانوں پر تشریف فرما ہوئے اور ملائکہ کرام نے آنحضرتﷺ کی امامت میں نماز پڑھی تو ان اوقات کی اذانوں میں بھی اشهدان علیا ولی اللہ کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

ملا باقر مجلسی نے حیات القلوب جلد 2 صفحہ 276 مطبوعہ ایران میں واقعہ معراج کے ذیل میں اس اذان کے پورے جملے نقل کئے ہیں اور یہ اذان وہی ہے جو مسلک اہلِ سنت و الجماعت کے موافق ہوتی ہے۔ 

ولایتِ سیدنا علیؓ کا یہ زائد جملہ ان میں کہیں نہیں ملتا۔

ملا کاظم خراسانی ذخیرة العباد میں لکھتے ہیں کہ اسے اذان کا جزء سمجھنا حرام ہے شیعہ حضرات کے اصول ارابعہ میں سے من لا یخضرہ الفقیہ ایک مشہور کتاب ہے اس میں ہے کہ سیدنا جعفر صادقؒ نے ابوبکر حضرمی اور کلیب اسدی کے سامنے اذان کے پورے جملے بیان فرمائے ان میں اشهدان علیا ولی اللہ کہیں نہیں ہے یہ ان بزرگوں پر بہتان اور افتراء ہے کہ ان کی اذان میں اس فقرے کے شامل ہونے کا دعویٰ کیا جائے ابنِ بابویہ اذان کو اس فقرے کے بغیر نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:

قال مصنف هذا الكتاب هذا هو الاذان الصحيح لا يزاد فيه ولا ينقص منه والمفوضة لعنهم الله قد وضعوا اخبارًا وزادوا فی الاذان محمد وآل محمد خير البرية مرتين ومنهم من روى بدل ذلك اشهدان عليا امير المؤمنين حقا ولا شك فى ان عليا ولى الله وانه امير المؤمنين حقا وان محمدا واله خير البرية ولكن ليس ذلك فی اصل الأذان۔

(من لا یحضرہ الفقیہ جلد 1 صفحہ 78 ایران)۔

ترجمہ: میرا (ابنِ بابویہ قمی کا) فیصلہ ہے کہ یہی اذان صحیح ہے اس میں نہ کوئی اور جملہ داخل کیا جائے اور نہ اس سے کچھ کم کیا جائے مفوضہ لوگوں نے خدا ان پر لعنت کرے کچھ روایات گھڑ لی ہیں اور اذان میں اضافہ کر دیا ہے جیسے محمد و آل محمد خیر البریہ اور انہی ملعونوں کی بعض من گھڑت روایات میں ہے کہ اشہدان محمد الرسول اللہ کے بعد دو دفعہ اشهدان علیا ولی اللہ کہا جائے اور بعض نے اس کی بجائے اشہدان علیا امیر المؤمنین حقا کی روایت بنائی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیدنا علی ولی اللہ ہیں اور امیر المومنین برحق ہیں اور یہ کہ محمد و آل محمد خیرالبریہ ہیں لیکن یہ جملے اذان کا جزو ہر گز نہیں ہیں۔

2۔ اہلِ سنت صبح کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کے الفاظ کہتے ہیں یہ الفاظ بے شک حدیث سے ثابت ہیں سیدنا انسؓ فرماتے ہیں:

من السنۃ اذا قال المؤذن فی اذان الفجر حی علی الصلوٰہ حی الفلاح قال الصلوٰۃ خیر من النوم۔

ترجمہ: موذن صبح کی اذان میں جب حی علی الفلاح کہہ لے تو اس کے بعد الصلوۃ خیر من النوم کہنا سنت ہے۔

اس حدیث کو ابنِ خزیمہؒ دار قطنیؒ اور بیہقیؒ نے روایت کیا ہے اور اسناد اس کا بالکل صحیح ہے امام نسائیؒ اپنی سنن میں الاذان فی السفر کے باب میں سیدنا ابی محذورہؓ یہ روایت کرتے ہیں انہوں نے فرمایا: 

جب آنحضرتﷺ حنین سے واپس لوٹے تو میں اہلِ مکہ میں سے دسواں تھا جو حضورﷺ کے ساتھ نکلا تھا ہم حضورﷺ اور ان کے ساتھیوں کی طلب میں تھے کہ ہم نے آنحضرتﷺ کے ساتھیوں کو اذان کہتے ہوئے سنا ہم ٹھہر گئے اور ہم نے بھی اذان کہنی شروع کر دی آنحضرتﷺ نے فرمایا: میں نے ان لوگوں میں سے کسی اچھے آواز والے کی آواز سنی ہے حضورﷺ نے ہمیں بلا بھیجا اور ہم میں سے ایک ایک نے اذان کہی تو حضورﷺ نے فرمایا: ادھر آؤ اور مجھے اپنے سامنے بٹھایا میری پیشانی پر اپنے دستِ مبارک سے مسح فرمایا: میرے لیے تین بار دعا فرمائی اور کہا جا خانہ کعبہ کے پاس اذان کہہ میں نے کہا یا رسول اللہﷺ میں کس طرح اذان دوں تو حضورﷺ نے مجھے اس طرح اذان سکھائی جس طرح کہ تم آج کل اذان کہہ رہے ہو۔ آپﷺ نے مجھے یہ اذان سکھائی:

اللہ اکبر اللہ اکبر حی علی الفلاح حی الفلاح الصلوۃ خیر من النوم الصلاۃ خیر من النوم فی الاولیٰ من الصبح قال عملنی الاقامۃ مرتین۔

(سنن نسائی جلد1 صفحہ 74)۔

اس حدیث میں صبح کی اذان میں الصلاۃ خیر من النوم کی واضح تصریح ارشادِ نبوت سے ثابت ہے سنن ابی داؤد میں ہے کہ حضورﷺ نے سیدنا ابی محذورہؓ کو اذان سکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: 

فان کان لصلوٰة الصبح قلت الصلوٰۃ خیر من النوم الصلوۃ خیر من النوم۔

(سنن ابی داؤد جلد 1 صفحہ 76)۔

ترجمہ: جب اذان صبح کی اذان کے لیے ہو تو الصلوۃ خیر من النوم بھی دو دفعہ کہا کرو۔

امام ابنِ خزیمہؒ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

(آثار السنن جلد 1 صفحہ 54)۔

محدثِ جلیل علامہ انور شاہ صاحبؒ فرماتے ہیں: 

الصلاۃ خیر من النوم فی اذان الفجر گو ثابت مرفوعا۔

(العرف الشذی صفحہ 110)۔

کہ صبح کی اذان میں الصلوۃ خیر من النوم کہنا آنحضرتﷺ سے پوری سند کے ساتھ ثابت ہے۔

وللہ اعلم باالصواب۔

کتبہ خالد محمود عفا اللہ عنہ۔