کسی حدیث میں آنحضرتﷺ کا یہ ارشاد موجود ہے کہ امام مہدی کے ظہور کے وقت ایک ہی رمضان میں سورج گرہن اور چاند گرہن لگیں گے چاند گرہن رمضان کی 13 تاریخ کو اور سورج گرہن 28 رمضان کو ہوگا اصل حقیقت کیا ہے؟ نیز مطلع فرمائیں کہ کیا یہ دونوں گرہن اپنی مذکورہ تاریخوں میں مرزا غلام احمد کے دعویٰ نبوت کے دور میں لگے ہیں؟
سوال پوچھنے والے کا نام: سید ناصر علی از لاہورجواب:
حدیث کی کتاب میں یہ پیشگوئی آنحضرت ختمی مرتبتﷺ کے الفاظ سے منقول نہیں اور نہ اسے حدیثِ نبوی کہا جاسکتا ہے مرزائی مبلغین جب اسے حدیثِ نبوی کہہ کر پیش کرتے ہیں تو یہ حضور اکرمﷺ پر ایک صریح بہتان اور افتراء ہے سنن دار قطنی میں یہ پیش گوئی ایک بزرگ محمد بن علیؒ سے منقول ہے جو صحابی بھی نہیں چہ جائیکہ اس روایت کو آنحضرتﷺ کا ارشاد کہا جائے بلکہ ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ محمد بن علیؒ نے ایسا واقعی فرمایا ہو۔ کیونکہ اس قول کو محمد بن علیؒ سے نقل کرنے والے بھی تقریباً ایسے ہی ہیں جو ضعیف اور پایہ اعتبار سے ساقط ہیں سنن دارقطنی میں محمد بن علیؒ نامی کسی بزرگ کا یہ قول اس طرح منقول ہے:
عن عمر بن شمر عن جابر عن محمد بن على قال ان المهدينا ايتين لم تكونا منذ خلق السموات والأرض تنكسف القمر لأول ليلة من رمضان و تنكسف الشمس فی النصف منه لم تكونا منذ خلق السموات والأرض۔ (سنن دار قطنی جلد 1 صفحہ 188)۔
ترجمہ: شمر کا بیٹا جابر جعفی سے نقل کرتا ہے کہ محمد بن علی نامی کسی شخص نے کہا کہ ہمارے مہدی کے دو نشان ہوں گے اور وہ دونوں (اپنی اپنی جگہ پر مستقل طور پر) ایسے ہیں کہ زمین و آسمان جب سے پیدا ہوئے کبھی ان کا ظہور نہیں ہوا۔
اول یہ کہ چاند کو گرہن رمضان کی پہلی رات ہوگا اور دوسرا یہ کہ سورج گرہن اسی رمضان شریف کے نصف میں واقع ہوگا۔ اور جب سے خدا تعالیٰ نے زمین و آسمان پیدا کئے ایسے گہنوں گا ظہور کبھی نہیں ہوا۔
شمر کا بٹیا عمرو جو محمد بن علی کے مذکورہ بالا قول کو نقل کر رہا ہے ہے اس قابل نہیں کہ اس کی نقل پر اعتماد کیا جائے یہ شخص کذاب اور تقیہ باز تھا اس پر رافضی اور شاتم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہونے کی جرح میزان الاعتدال ذہبی میں موجود ہے اس کا استاد جابر جعفی جو مذکورہ پیشگوئی کا راوی ہے ضعیف ہے اس کے متعلق امام ابوحنیفہؒ فرماتے ہیں کہ میں نے آج تک اس جیسا جھوٹا راوی کسی کو نہیں دیکھا پس جب محمد بن علی سے نقل کرنے والوں کا بھی یہ حال ہے تو ہم اسے پورے اعتماد کے ساتھ حضرت محمد بن علی کا قول بھی نہیں کہہ سکتے چہ جائیکہ اسے کسی صحابی کا قول یا ارشاد رسول خاتمﷺ کہا جاسکے۔
باقی یہ سوال کہ اگر یہ قول ایسا ہی کمزور اور مقطوع تھا تو پھرا سے امام دار قطنیؒ نے درج کیوں کیا ہو اس کا جواب یہ ہے کہ احادیث کی کتابوں میں ارشاداتِ نبویﷺ کے علاؤہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین کے آثار بھی منقول ہوتے ہیں بعض مقامات پر ائمہ و فقہاء کے اپنے اقوال بھی مندرج ہوتے ہیں حدیث کی کتاب میں درج ہونا اس بات کو ہرگز لازم نہیں کہ یہ قول خود لسانِ شریعت سے منقول ہو ایسا گمان محض جہالت اور نادانی پر مبنی ہے اہلِ علم کے ہاں اس سوال کی کوئی قیمت نہیں حضرت شاہ عبدالعریز محدث دہلویؒ اپنے اصول حدیث کے رسالہ عجالہ نافعہ کے صفحہ7 پر تصریح فرماتے ہیں کہ سنن دار قطنی حدیث کی تیسرے طبقے کی کتابوں میں سے ہے جن کے جمع کرنے والوں نے روایات کی صحت کا التزام نہیں کیا بلکہ ہر طرح کی روایات ان میں جمع کر رکھی ہیں۔
مرزا صاحب نے اس ضعیف اور بے بنیاد قول کو جو کذاب قسم کے راویوں کے واسطہ سے صرف محمد بن علی تک پہنچتا ہے اگر حدیثِ رسول سمجھ لیا ہے تو ہمارے لیے بالکل قابلِ التفات نہیں مرزا صاحب فنِ حدیث میں بہت کمزور تھے انہیں یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ صحیح ایک خاص معیار کی کتب ہوتی ہیں جیسے صحیح بخاری اور صحیح مسلم وغیرہ اور یہ کہ حدیث کی ہر کتاب صحیح نہیں کہلاتی اور وہ اس حقیقت سے بھی بےخبر تھے کہ سنن دار قطنی محدثین کے ہاں ہر قسم کی رطب و یابس روایات پر مشتمل ہے مرزا صاحب کی نادانی دیکھئے کہ وہ دار قطنی کو بھی صحیح کا نام دے رہے ہیں لکھتے ہیں:
صحیح دار قطنی میں ایک حدیث ہے الخ۔
(حقیقۃ الوحی صفحہ 194)۔
یہ سنن دار قطنی ہونا چاہیئے تھا۔
یہ حدیث اگر قابلِ اعتبار نہیں تھی تو دار قطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کو درج کیا۔
(تحفۃ گولڑویہ صفحہ 28)۔
حدیث کے ابتدائی درجہ کے طلبہ کو بھی معلوم ہے کہ امام بخاریؒ کا اسم گرامی محمد تھا اسماعیل نہ تھا اسماعیل ان کے باپ کا نام تھا مگر مرزا صاحب ازالہ اوہام میں امام بخاریؒ کا نام اسماعیل بتاتے ہیں حالانکہ اس وقت اور ان علاقوں میں اس طرح کے مرکب ناموں کا منہاج ہی نہ تھا (دیکھئے ازالہ اوہام جلد 1 صفحہ 111۔138 جلد دوم صفحہ 259۔645)۔ شہادت القرآن میں مرزا صاحب ایک حدیث صحیح بخاری کے حوالے سے نقل کرتے ہیں حالانکہ وہ صحیح بخاری میں بالکل نہیں ہے۔
اور پھر یہ نہیں کہ صحیح بخاری کا لفظ اتفاقاً قلم سے نکل گیا ہو بلکہ سے اصح الکتب بعد کتاب اللہ کہہ کر اس نقل کی اور توثیق کرتے ہیں پھر ازالہ اوہام صفحہ 23 پر آنحضرتﷺ کی طرف نسبت کرتے ہوئے یہ الفاظ بطورِ حدیث کے پیش کرتے ہیں: بل هو امامكم منكم لفظ بل عجیب اضافہ ہے۔
حالانکہ یہ الفاظ اس طرح آنحضرتﷺ کی کسی حدیث میں نہیں ملتے نہ ان کے لیے کوئی سند صحیح ہے اور نہ کوئی ضعیف یہ محض ایک افتراء اور بہتان ہے الحاصل مرزا غلام احمد فنِ حدیث میں عام طلبہ کے بھی ہمسر نہیں تھے پس اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم ان کے اعتماد پر مذکورۃ الصدر پیشگوئی کو آنحضرتﷺ کی حدیث تسلیم کرلیں۔ (معاذ اللہ ثم معاذ اللہ)۔
2۔ مذکورہ گرہن مرزا غلام احمد قادیانی کے دعویٰ کی تصدیق کے لیے قطعاً ثابت نہیں ہوئے یہ محض پراپیگنڈہ ہے مرزائیوں کے اپنے دعویٰ کے مطابق گرہنوں کا وقوع 1312ھ میں پیش آیا حالانکہ اس وقت تک مرزا صاحب نے رسالت کا دعویٰ ہی نہ کیا تھا تعجب ہے کہ مرزا صاحب نے ان گرہنوں کو اپنے دعویٰ نبوت اور رسالت کی تصدیق کے لیے کیسے پیش کر دیا مرزا صاحب لکھتے ہیں:
اس حدیث کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی یہ دو گرہن جمع نہیں ہوئے بلکہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع نہیں ہوۓ جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اس پر دلالت کر رہے ہیں اگر کسی کا یہ دعویٰ ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں یہ دونوں گرہن رمضان میں کسی زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔ (حقیقۃ الوحی صفحہ 196)۔
اگر یہ کہا جائے کہ گرہن مہدیت کی علامت ہیں نبوت اور رسالت کی نہیں تو یہ بھی صحیح نہیں کیونکہ مرزا صاحب کے نزدیک مہدیت کا دعویٰ رسالت کے دعویٰ کو بھی شامل ہے یہی وجہ ہے کہ وہ حقیقت الوحی کی مذکورہ عبارت میں اسے اپنے دعویٰ نبوت و رسالت کے لیے آسمانی نشان بتلا رہے ہیں چونکہ مرزا صاب کا یہ دعویٰ رسالت بہت بعد کیا ہے اور یہ وقوعِ گرہن اس سے بہت پہلے کا ہے بنابریں ہم یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت کے دور میں ایسے گرہن کبھی نہیں لگے یہ قادیانی حضرات کا محض پراپیگنڈہ ہے اسی طرح ان لوگوں کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ 1212ھ کے اس مذکورہ گرہن سے پہلے اس طرح کے گرہن کبھی نہیں لگے کیونکہ اس سے ایک سال قبل 1211ھ میں بھی چاند اور سورج کا گرہن امریکہ میں لگا تھا اور وہاں بھی اس وقت ایک جھوٹا مدعی نبوت مسٹر ڈوںٔی موجود تھا۔ پس ایسے گرہن جو خرقِ عادت بھی نہیں کسی دعویٰ کی تصدیق کے ضامن ہرگز نہیں ہوسکتے۔
واللہ اعلم بالصواب۔
كتبہ خالد محمود عفا الله عنہ۔