Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

ہفت روزہ دعوت کے گذشتہ شمارہ میں اس سوال کا جواب موصول ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا فیصلہ اٹل ہوتا ہے تو پھر اس کے بعض احکام منسوخ کیوں ہو جاتے ہیں اس جواب سے میری کافی تسلی ہوگئی ہے مگر ایک دوسرا خدشہ ذہن میں وارد ہوگیا ہے اس کا بھی ازالہ فرمائیں وہ خدشہ یہ ہے کہ جو حکم منسوخ ہوتا ہے اس کا ناسخ ضرور اس سے بہتر ہوتا ہے یا کم از کم اس کی مثل ہوتا ہے قرآنِ مجید میں ہے: ۞ مَا نَنسَخۡ مِنۡ ءَايَةٍ أَوۡ نُنسِهَا نَأۡتِ بِخَيۡرٍ۬ مِّنۡہَآ أَوۡ مِثۡلِهَآ‌ۗ الخ۔ (سورة البقرہ آیت 106)۔ مگر معراج کی رات جب پچاس نمازیں منسوخ ہو کر پانچ رہ گئیں تو یہ پانچ ان پچاس سے کسی طرح افضل نہیں اور نہ ہی ان کی مثل ہیں بلکہ یہاں اعلیٰ ادنیٰ کے ساتھ منسوخ ہو رہا ہے پھر نسخ قبل العمل کہ منسوخ پر ابھی عمل نہ ہوا ہو اور ناسخ آجائے یہ بات وضاحت طلب ہے اس کی تفصیل فرمائیں؟

سوال پوچھنے والے کا نام:   رشید احمد ارشد قریشی جکروی از جہلم

 جواب:

اللہ رب العزت اپنے جس حکم کو منسوخ فرماتے ہیں اس کا ناسخ پہلے حکم سے یقیناً بہتر ہوتا ہے اور اس کے برابر ہونے میں تو کلام ہی نہیں لیکن ہر حکم کمیّات اور مقدار کے اعتبار سے ہی ناپا تولا یا گنا نہیں جاتا بکہ اس کی کیفیاتِ لوازمات اور کئی دوسرے اعتبارات کو بھی ملحوظ رکھا جاتا ہے پانچ نمازیں گنتی اور تعداد میں تو پچاس نمازوں سے بہتر اور زیادہ نہیں لیکن اس لحاظ سے کہ پانچ نمازوں کے فرض ہونے کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے اتنے امکانات نہیں جتنے کہ پچاس نمازوں کے فرض ہونے کی صورت میں ہیں پانچ یقیناً پچاس نمازوں سے زیادہ بہتر اور افضل ہیں پانچ نمازوں کی فرضیت کی صورت میں رزقِ حلال طلب کرنے کے مواقع اتنے زیادہ ہیں کہ پچاس نمازوں کی صورت میں اتنے نہیں اس اعتبار سے بھی پانچ پچاس سے بہتر اور افضل ہیں اور جب کہ ان پانچ پر ثواب اتنا ہی مرتب ہوتا ہو جتنا کہ پچاس پر تو ان پانچ کی ہر ایک اکائی پچاس کی ہر ایک اکائی سے یقیناً افضل اور بہتر ہوگی اللہ رب العزت نے پہلے پچاس نمازیں فرض فرمائیں تو آنحضرتﷺ نے اسی طرح تسلیم کر لیا اور احکامِ باری تعالیٰ اسی صورت میں لا رہے تھے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشورے سے اس میں ترمیم و تسہیل کے لیے پھر عرضداشت پیش کی اس سے جہاں آنحضرتﷺ کے کمالِ اطاعت کمالِ تسلیم اور کمالِ ادب بحضورِ باری تعالیٰ کا پتہ چلتا ہے وہاں نماز عبادت اور اطاعتِ رب العزت کے آنحضرتﷺ کے مرغوب طبعی ہونے کی بھی شہادت ملتی ہے کہ کثرتِ عبادت پر حضورﷺ طبعاً اس طرح مسرور اور مطمئن ہیں جیسے کسی کو نہایت لطیف اور لذیذ مٹھائی کھانے کو مل جاوے جس کے واپس کرنے اور لَوٹانے کا تصور بھی دل میں نہیں گزرتا ہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عرض کرنے پر پھر تقلیل و تخفیف کی گزارش اس اَمر کا پتہ دیتی ہے کہ مشورہ لینے اور قبول کرنے کے اعلیٰ اخلاق آنحضرتﷺ کی عادت شریفہ میں طبعی طور پر سموئے ہوئے تھے اور پھر ان سب کا مرکز بھی حضورﷺ کی اپنی ضرورت نہ تھی بلکہ رحمتہ للعالمینﷺ کا دامنِ رحمت خود امت کی بہتری اور مرکزی آسائش کے لیے ہی پھیل رہا تھا پہلے پچاس نمازوں کے فرض ہونے اور بالآخر پانچ رہ جانے میں ان جیسی اور ہزاروں حکمتیں موجود ہوں گی تاہم اس یقین سے چارہ نہیں کہ اگر اوّلاً ہی پانچ کی فرضیت ہوتی تو یہ حقائق و معارف اس صورت میں ہرگز ظاہر نہ ہوتے باقی رہا نسخ قبل العمل تو یہ اس واقعہ معراج میں ہی مذکور نہیں اس کے علاوہ بھی یہ حقیقت اپنی جگہ ثابت ہے اللہ رب العزت نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کے ذبح کرنے کا حکم دیا جیسا کہ آیتِ قرآنی "يَـٰٓأَبَتِ ٱفۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُ‌ۖ الخ (سورۃ الصٰفات آیت 102)۔ سے مستفاد ہے پھر بغیر اس کے کہ اس پر عمل کا تحقق ہو اللہ رب العزت اسے مینڈھا ذبح کرنے کے دوسرے حکم سے بدل دیتے ہیں۔ "وَفَدَيۡنَـٰهُ بِذِبۡحٍ عَظِيمٍ۝"۔ (سورۃ الصٰفات آیت 107)۔ اس میں خواہ ہزاروں حکمتیں ہوں لیکن اس سے انکار نہیں کہ نسخ قبل العمل کی صورت یہاں بھی پیش آئی اب یہاں مینڈھے کی قربانی کرنا بیٹے کی قربانی کرنے کے ثواب سے کسی صورت میں بھی کم نہیں ٹھیک ہے کہ مینڈھے کا درجہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے برابر ہرگز نہیں چہ جائیکہ افضل اور برتر ہو لیکن سوال مینڈھے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ذات اور شخصیات کا نہیں بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فعل قربانی کا ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ خلیلِ باری حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس صورتِ پیش آمدہ میں مینڈھے کی قربانی کا جو ثواب ملا وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کے ثواب سے کسی صورت میں کم نہیں اور اس فدیہ اور نسخِ حکم سے اعلیٰ کا ادنیٰ کے ساتھ منسوخ ہونا کسی طرح لازم نہیں آرہا۔

واللہ اعلم بالصواب۔ كتبہ خالد محمود عفا الله۔